پکچر گیلری

رئیس فاطمہ  اتوار 30 اگست 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اگست کا مہینہ ہو اور ہم قرۃ العین حیدر کو بھول جائیں؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ یوں تو بے شمار لکھنے والے ہیں لیکن نہ جانے کیوں قرۃ العین حیدر کی تحریر جس طرح ذہن کو متاثر کرتی ہے، دل کو چھوتی ہے اور جذبات سے ہم آہنگ ہو کر اپنی دنیا کا حصہ بنا لیتی ہے ویسا جادو مجھے کسی اور تحریر میں نظر نہیں آتا۔ البتہ  الطاف فاطمہ جو افسانے اور ناول کا بہت بڑا نام ہیں، لاہور میں ڈیوس روڈ پہ رہتی ہیں، آنکھوں میں زمانہ ساز لوگوں کے رویوں کا شکوہ اور گفتگو میں ایک ایسا دکھ جسے مومنؔ نے اپنے اس شعر میں خوب بیان کیا ہے:

پہنچے وہ لوگ رتبے کو کہ مجھے
شکوۂ بختِ نا رسا نہ رہا

ان کے ناول ’نشان محفل‘  نے بھی اسی طرح متاثر کیا تھا، جیسے قرۃ العین حیدر کے ’آخر شب کے ہم سفر‘ اور ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ نے۔ الطاف فاطمہ  کے اندر جو قناعت ہے وہ بڑے اور خاندانی لوگوں میں تو ہوتی ہی ہے لیکن مجھے اس میں زمانے کی بے حسی اور طالع آزماؤں کے رویوں کی شکایت بھی نظر آئی۔ الطاف فاطمہ کا دوسرا ناول ’’دستک نہ دو‘‘ روحی بانو کے حوالے سے مجھے یوں یاد رہتا ہے کہ روحیؔ نے سطوت کے کردار کو زندہ کر دیا تھا۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوں، افسانوں وغیرہ سے ہٹ کر دل چاہ رہا ہے کہ آج آپ کی ملاقات ان کے خاکوں کے مجموعے ’’پکچر گیلری‘‘ سے کرواؤں۔ جس میں ان کا ایک رپورتاژ ’’دکن سا نہیں ٹھار سنسار میں‘‘ بھی شامل ہے۔ اس مجموعے میں چھ شخصیات کے خاکے اور تین مضامین بھی شامل ہیں۔ جو اپنی سحر بیانی، پرلطف پیرایہ بیان اور کشش انگیز نثر کی بدولت ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ خاکے شاہد احمد دہلوی، عزیز احمد، ابن انشا، سجاد حیدر یلدرم، محمد علی ردولوی اور مولانا مہر محمد خاں شہاب کے ہیں۔ ایک طرح سے ان خاکوں کو تاثراتی مضمون بھی کہا جا سکتا ہے۔

عزیز احمد کا تعلق حیدرآباد دکن (بھارت) سے تھا۔ وہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے۔ پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پہ اپنی ذاتی صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر فائز رہے۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ ایک ہی آفس میں کام بھی کیا۔ لیکن افسوس کہ نقادوں نے انھیں شاید جان بوجھ کر نظرانداز کیا، کہ قابل آدمی سے بہت سے نااہل سفارشی خوف زدہ ہو کر ایک محاذ بنا لیتے ہیں۔ تا کہ ان کی دال روٹی چلتی رہے۔ عزیز احمد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عزیز احمد وزارت اطلاعات و نشریات میں اعلیٰ عہدے پہ فائز تھے۔

یہ محکمہ اہل قلم سے پُر تھا، خود قرۃ العین حیدر کے علاوہ شان الحق حقی، پروفیسر رشید احمد صدیقی کے بھانجے اور داماد جلال الدین احمد، ماہ نو کے ایڈیٹر رفیق خاور، اللہ بخش راجپوت جو بعد میں پی ٹی وی کے سربراہ بنے۔ پاکستان کوارٹرلی (سہ ماہی) کے امجد علی، انگریزی کے صحافی ناصر شمسی اور انور قریشی، شیخ محمد اکرام (آب کوثر۔رودِ کوثر کے مصنف) قدرت اللہ شہاب کے علاوہ خود قرۃ العین بھی اسی محکمے سے وابستہ تھیں۔

ان کا اور عزیز احمد کا کمرہ آمنے سامنے تھا۔ بقول مصنفہ عزیز احمد کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ 1956ء میں وہ اپنے محکمے کے ڈائریکٹر ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کے رویوں اور تنقید سے دل برداشتہ ہو کر انھوں نے ترک وطن کا فیصلہ کر لیا تھا۔ قرۃ العین حیدر اسی حوالے سے لکھتی ہیں۔

’’آج کل اردو میں کوّا نوچن کے ساتھ ساتھ جو ادبی Permissiveness رائج ہے، وہ اس وقت موجود نہ تھی۔ لہٰذا عزیز صاحب سے اکثر یہ شکایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنے افسانوں کے پردے میں اسکینڈل کیوں لکھتے ہیں۔ ایک بار لاہور میں آپا حمّن بھائی جان کے ہاں عزیز احمد  سے ان کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کے متعلق بحثا بحثی ہو رہی تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ مصنف نے حیدرآباد کے ایک مشہور خاندان کے حالات محض نام بدل کے لکھ دیے ہیں۔ میں نے کہا یہ ضروری نہیں کہ ہر افسانہ یا ناول کاملاً تخیلی ہو۔ حقیقت کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے۔

مگر آپ اصل واقعات محض نام بدل کے لکھ دیں تو وہ اسکینڈل مونگرنگ ہے۔ ادب نہیں اور پھر ایسے لوگ جو آپ کو اپنا پرخلوص دوست سمجھتے ہوں، آپ ان کو ہی نشانہ بنائیں۔”One should draw a line some where” کہنے لگے ’’بی بی حیدرآباد کی سوسائٹی اس قدر فاسد تھی کہ آپ اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتیں (یہی بات اب واجدہ تبسم بھی کہتی ہیں) پھر میں نے کہا کہ ابھی کا ذکر ہے آپ نے اپنے دوست کی بھتیجی ہی کے متعلق افسانہ لکھ ڈالا۔ علاوہ ازیں خدانخواستہ آپ کی اپنی کسی قریبی عزیزہ کا کوئی واقعہ ہو تو بھی آپ اسی صاف گوئی سے کام لیں گے؟‘ عزیز صاحب ہنسنے لگے۔’ اکثر لوگ دوسروں پر کڑی نکتہ چینی کر کے خوش ہوتے ہیں، لیکن خود اپنے متعلق تنقید کا ایک لفظ نہیں برداشت کر سکتے، اس وقت ان کا سارا سینس آف ہیومر غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ عزیز اپنے خلاف تنقید خندہ پیشانی سے قبول کر لیتے تھے جو ذہنی اور جذباتی پختگی کی علامت ہے۔ عزیز صاحب ایک Toothy Smile والے ہنس مکھ انسان ہیں۔

’’میں اور میرا فن‘‘ قسم کا کوئی Pompous مضمون بھی جہاں تک میرا خیال ہے انھوں نے اپنے متعلق کبھی نہیں لکھا، لیکن تعجب کی بات ہے کہ نقادوں نے انھیں عموماً نظرانداز کیا۔‘‘

عزیز احمد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے ادبی ایشوز پہ بات کی ہے اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اسے خاکہ نہیں بلکہ مضمون کہنا زیادہ بہتر ہے۔ عزیز احمد کی قرۃ العین حیدر کی چچا زاد بہن کے شوہر جرمی احمد سید سے گہری دوستی تھی، اس لیے لاہور میں ان کے گھر نجی محفلوں میں جہاں عزیز احمد شریک ہوتے تھے۔ وہیں مصنفہ بھی کوئی سوال پوچھنے سے چوکتی نہیں تھیں۔

اسی طرح انھوں نے اس مضمون میں ان نام نہاد نقادوں کی بھی خبر لی ہے جو اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے مغربی مفکرین، ادیبوں اور دانشوروں کے ذکر سے بات شروع کرتے ہیں تا کہ ان کی جہالت کا پردہ چاک نہ ہو، کافکا، جیمس جوائس، سارتر کروچے اور راں بو تو جیسے گھر کی مرغی ہیں، کہ جہاں اور جب چاہو گفتگو اور تحریر میں انھیں آزادانہ دانہ چگنے کے لیے چھوڑ دو۔ کہ برسوں کی غلامی نے خود کو حقیر سمجھنا اور ہر مغربی ادیب اور اس کی تحریر کو صف اول کی بتا کر مرعوب ہونا دراصل کولونیل کلچر اور لٹریچر کا عکاس ہے۔

آگے فرماتی ہیں۔ ’زریں تاج‘ ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘ (جو ہیرلڈ لیمب سے متاثر معلوم ہوتا ہے) اور ’تصور شیخ‘ (یہ بھی اردو کے دو نامور استاد شعرا کی زندگیوں سے متعلق تھا)  عرصہ گزرا جب پڑھے تھے اور مجھے خیال آیا تھا کہ مصنف کے ہاں تاریخ کی مابعد طبیعاتی اور Mystical جہات کی گرفت اور اس کا ایک Awesome sense of mystery ایک حد تک موجود ہے۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔