پرائمری ہی نہیں اعلیٰ تعلیم بھی اردوزبان میں ہونی چاہیے، رفیعہ حسن

محمود الحسن  جمعرات 4 اگست 2016
قانون کی ہرجگہ عملداری ضروری ہے، احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہیے، ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ حسن سے مکالمہ: فوٹو : فائل

قانون کی ہرجگہ عملداری ضروری ہے، احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہیے، ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ حسن سے مکالمہ: فوٹو : فائل

برصغیر کے مسلمان گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم اوران کے گھر سے باہر نکل کرکام کرنے کی اہمیت کو بہت دیر میںمانا گیا، لیکن رجعت پسندی کے دورمیں بھی ایسے روشن خیال لوگ موجود رہے، جنھوں نے اپنی بچیوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم دلائی بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے جاکر، انھیں اپنے فطری رجحان اور شوق کے مطابق اپنی پسند کا میدان منتخب کرنے کی آزادی بھی دی۔

آزادانہ اور لبرل ماحول ملنے پر ان بچیوں نے پھر زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔ صرف اردو ادیبوں کی مثال سے بات روشن ہو جائے گی۔ سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی قرۃ العین حیدر نے اردو ادب میں بڑا نام کمایا۔ کیفی اعظمیٰ کی دخترشبانہ اعظمیٰ نے فن اداکاری میں اونچا مقام حاصل کیا۔ فیض احمد فیض کی بیٹیوں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی نے اپنے اپنے شعبوں میں ناموری حاصل کی۔

حمید اختر کی بیٹی صبا حمید اور احمد بشیرکی بیٹی بشریٰ انصاری نے ٹی وی اداکارہ کے طور پراپنا منفرد مقام بنایا۔ اس سے آگے یہ منزل آئی کہ عالم فاضل باپ سے علمی وراثت بیٹی کو منتقل ہوئی۔ ممتاز ادیب انتظار حسین نے بیٹیوں کی اس ترقی پرخوش ہوکرلکھا تھا کہ پہلے تو سدا ہم یہی سنتے رہے کہ ’اگرپدر نتواند پسر تمام کند‘ لیکن پھر وہ زمانہ بھی دیکھا کہ بیٹیوں نے پھریری لی اور لگا کہ ’اگرپدر نتواند دختر تمام کند‘۔ خواتین کی کامیابیوں کا قصہ اب اتنا طولانی ہو چکا ہے کہ اس کے بیان کے لیے کئی دفتردرکار ہوں گے، اس لیے ہم اب اصل موضوع کی جانب مڑتے ہیں، اور آپ کی ملاقات ایک روشن خیال عالم، فلسفی اور ادیب کی بیٹی سے کراتے ہیں، جن کی علمی اٹھان دیکھ کر والد نے برملا کہہ دیا تھا کہ علمی میدان میں، وہی ان کی وارث ہوں گی۔

باپ خلیفہ عبدالحکیم ہیں اور بیٹی ڈاکٹر رفیعہ حسن۔ باپ کے تناورعلمی قد کے تعارف کی ضرورت نہیں، ان کی علمیت کی گواہی کے لیے گراں قدرکتابیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر رفیعہ حسن ملک کی ممتاز ماہر نفسیات ہیں۔ سندھ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی چیئرپرسن رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر برائے کلینکل سائیکالوجی کی بانی ڈائریکٹر ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ اندرون و بیرون ملک بہت سے تحقیقی مقالے پیش کئے۔ لیکچر دیے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر ان ایجوکیشن کیا۔ 1964ء میں لندن یونیورسٹی سے نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

رفیعہ حسن نے 10ستمبر1930کو حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی، جہاں اس وقت والدخلیفہ عبدالحکیم، عثمانیہ یونیورسٹی سے متعلق تھے۔ محبوبیہ گرلز اسکول سے جونیئرکیمبرج کیا۔ انگریز اساتذہ کی شفقت اب بھی یاد ہے۔ ہندو، پارسی لڑکیوں سے مسلمان لڑکیوں کی طرح سے ہی گہری دوستی تھی۔ آپسی تعلقات میں تعصب کو دخل نہ تھا۔ رواداری اور امن اس معاشرے کی پہچان تھا۔

والد ڈیپوٹیشن پرکشمیر میں امر سنگھ کالج کے پرنسپل بنے تو پھر وہیں سے میٹرک اور ایف اے کیا۔ تقسیم کے بعد کنیئرڈ کالج سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج سے ایم۔اے نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ رول آف آنر ملا۔ قاضی محمد اسلم ان کے استاد تھے، جنھوں نے، ان کے بقول، ہمارے ہاں نفسیات کے مضمون کے فروغ میں اہم کردارادا کیا۔ جی سی میں لیبارٹری قائم کی۔ قاضی اسلم کے سوا، نفسیات سے متعلق، ڈاکٹر اجمل، غلام جیلانی ، ڈاکٹر مغنی اور حفیظ زیدی کی خدمات کا اعتراف کرتی ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کس بڑے نفسیات دان نے متاثر کیا تو کہنے لگیں کہ کسی ایک نے نہیں بلکہ مختلف نفسیات دانوں کے کام نے متاثرکیا ، فرائیڈ ہو، یونگ ہو یا ایڈیلرسب  کی اپنی اپنی منفرد حیثیت ہے۔

نفسیات کی طرف رجحان کے باب میں پوچھنے پر بتایا کہ والد کا مضمون فلسفہ تھا، جو اس قدر جامع ہے کہ بھلے سے کسی بھی مضمون میں ڈاکٹریٹ کر لیں اسے ڈاکٹر آف فلاسفی ہی کہا جائے گا۔ وہ بتاتی ہیں کہ نفسیات کا فلسفہ سے نزدیکی تعلق ہے، اور نفسیات ایک طرح سے فلسفہ کی بیٹی ہے۔ شاید اسی لیے فلسفی کی بیٹی نے نفسیات کا مضمون چنا جبکہ ان کے بھائی عارف حکیم نے فزکس میں ماسٹرز کیا۔

ڈاکٹر رفیعہ حسن کے تدریسی سفر کا آغاز سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے ہوتا ہے، جہاں دس برس علم کا نور بانٹا۔ صدرشعبہ رہیں۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اطلاقی نفسیات میں ان کا تقرر ہوا۔

اطلاقی نفسیات کو اس موضوع کی توسیع قراردیتی ہیں، جس میں مضمون کے بنیادی اصولوں اور علمی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عملی اطلاق پربھی زور دیا جاتا ہے، اسی کی تحت تعلیمی نفسیات، انڈسٹریل نفسیات اور سماجی نفسیات کی تعلیم ہوتی ہے، ان کے بقول، ہم نے کوشش کرکے محکمہ صحت میں طلبا کی ملازمت کی گنجائش پیدا کرائی اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر، ان کے کام کرنے کا آغاز ہوا۔

ضیاء الحق کے دورکو وہ معاشرے کے لیے تباہ کن اور سیاہ جانتی ہیں البتہ نفسیات کی تعلیم سے متعلق ان کے ایک اچھے کام کاذکر کرتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک کانفرنس میں ضیاء نے جامعات میں کلینکل سائیکالوجی کا الگ سے شعبہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا، جہاں پر نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کی بہبود کے لیے کچھ ہو۔ اس پر پھر کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں کلینکل سائیکالوجی کے شعبے کھلے۔ ایسے سینٹرزکے قیام میں ضیاء کی خصوصی دلچسپی کاباعث، وہ ان کی اپنی بیٹی کا سپیشل چائلڈ ہونا قرار دیتی ہیں۔

ڈاکٹر رفیعہ حسن کا کہنا ہے کہ ہم نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی فکرسے کچھ حاصل نہ کیا۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ مملکت کا جو نقشہ بانیان پاکستان کے ذہن میں تھا، کیا وہ اسلام کے مطابق نہ تھا؟ جو ہم بعد میں قرارداد مقاصد لے آئے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد حقائق مسخ کئے۔ مثال دیتی ہیں کہ تحریک پاکستان میں بنیادی نعرہ تو یہ لگا کہ ’لے کر رہیں گے پاکستان ، بن کر رہے گا پاکستان، لیکن بعد میں بتایا گیا کہ ہم نے تو وطن پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللّٰہ کی بنیاد پرحاصل کیا ہے۔

وہ بانی پاکستان کی 11اگست 1947ء کی تقریر پر عمل پیرا ہونے میں قوم کی نجات دیکھتی ہیں اور ان کے خیال میں اس کے مطابق چلنے سے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ہم اسلام کی اصل روح کو چھوڑ کر تفرقے میں پڑ گئے، جس میں سب سے زیادہ اضافہ ضیاء الحق نے کیا۔ ان کے خیال میں ہم راستے سے بھٹک گئے ہیں، ہم سب کا فرض ہے، سیدھا راستہ تلاش کریں، کیونکہ حالات ٹھیک کرنے فرشتے تو نہیں آئیں گے ۔ ‘‘ وہ قانون کی ہر جگہ عمل داری میں معاشرے کی فلاح دیکھتی ہیں۔ احتساب کے عمل کو اوپر سے شروع کرنے کی حامی ہیں کیونکہ ان کی دانست میں اسی صورت میں غلط کام پر نیچے والوں کوگرفت میں لایا جاسکے گا۔ ان کے بقول، قانون کا یہ خوف ہی ہے کہ قانون شکن پاکستانی، بیرون ملک جائیں، تو قانون پرعمل کرنے لگتے ہیں ۔

ڈاکٹر رفیعہ حسن کے والد نے پی ایچ ڈی کی۔ یہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں۔ پھر ان کی بیٹی ندیٰ حسن نے اس روایت کو آگے بڑھایا ۔ داماد بھی ڈاکٹر ہے۔ ان کے شوہر مسعود حسن مختلف کمپنیوں میں کلیدی عہدوں پر رہے۔ عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے سوتیلے بھائی کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں زبانی جمع خرچ زیادہ اور عمل کم ہے۔

اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم سے لسانی نہیں طبقاتی تفریق بھی پیدا ہوئی
لندن یونیورسٹی سے میں نے ڈاکٹریٹ کیا،جس میں، میں نے ان بچوں کا جن کا ذریعۂ تعلیم انگریزی تھا، ان کا مقابلہ ان بچوں سے کیا جن کا ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کے لیے میں نے وہ بچے چنے، جو عمر، طبقے اور ذہانت کے لحاظ سے ایک جیسے ہوں، صرف ان کا ذریعۂ تعلیم مختلف ہو۔ وہ مضامین جن میں زبان کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا مثلاً جیسے ریاضی ہے، ان میں تو بچوں میں خاص فرق دیکھنے میں نہیں آیا لیکن جن مضامین میں تخیل اور تحریری مہارت کی ضرورت تھی، وہاں ان بچوں نے زیادہ بہترصلاحیت کا مظاہرہ کیا جنھوں نے اپنی مادری زبان اردو میں اظہار خیال کیا، بہ نسبت ان بچوں کے، جو غیر زبان میں پڑھ رہے تھے۔

اردوزبان میں کامیابی سے تدریس کی سب سے روشن مثال عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے قائم کی۔ وہاں اعلیٰ تعلیمی سطح پر بھی ہرمضمون اردومیں پڑھایا گیا۔ یہ بڑی کامیابی سے ممکن ہوا ۔ انھوں نے دارالترجمہ قائم کیا، جہاں پر ہر مضمون کی اصطلاحات کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا جاتا۔ ہر مضمون کے ماہر اور انگریزی زبان کے ماہر مل کرفیصلہ کرتے۔ میڈیسن، انجینئرنگ سمیت کتنے ہی سائنسی مضامین کی تعلیم اردو میں ہوتی۔ اس یونیورسٹی کے بہت سے فارغ التحصیل طالب علموں نے اپنی علمیت کی بنا پر بڑی شہرت حاصل کی۔ رضی الدین صدیقی جو پاکستان میں چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بنے وہ عثمانیہ یونیورسٹی سے پڑھے تھے اور ان کا مضمون فزکس تھا۔ نہ صرف یہ کہ انھیں اپنے مضمون میں عبور حاصل تھا بلکہ اردوکے پس منظرکی وجہ سے مشرقی تہذیب سے متعلق ان کی معلومات حیران کن تھیں۔

پاکستان بننے کے بعد آئین میں اردو کے فروغ اور اس میں تعلیم کا لکھا تو ہے لیکن اس پرعمل نہیں کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم جامعہ عثمانیہ کی مثال پرادارے بنا کر چوٹی کے اسکالرز پیدا کرتے۔ اس بات سے متفق نہیں کہ کم از کم پرائمری تعلیم اردو میں ہو، نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی اس زبان میں ہونی چاہیے، اور جامعہ عثمانیہ نے یہ کردکھایا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کرجرمنی، فرانس، چین اور ایران نے اپنی زبانوں میں تعلیم دے کرترقی کی ہے، مادری زبان میں تعلیم ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی۔ اپنی زبان میں تعلیم سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ انگریزی نہ سیکھیں، یہ بین الاقوامی زبان ہے، اور اس میں بھی مہارت ہونی چاہیے۔

اردو اور انگریزی میڈیم میں تعلیم کے سماجی مضمرات بھی ہیں۔ اس سے آپ نے خود قوم کو لسانی ہی نہیں طبقاتی طور پر بھی تقسیم کردیا۔ اسکالرشپ اور ملازمتوں کے دروازے انگریزی والوں کے لیے کھلے ہیں، جبکہ اردو میڈیم طالب علم جتنے بھی ذہین ہوں انگریزی میں کمزور ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ریاست کا کام شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا۔

نظام حیدرآباد، سر اکبرحیدری نے برصغیر بھر سے چن چن کرحیدرآباد میں ذہین افراد اکٹھے کئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ان کی بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے۔

والد نے اپنی مرضی مسلط نہیں کی
والد خلیفہ عبدالحکیم کی وجہ سے یا ان کے نام سے پہچانے جانے سے کبھی پریشانی نہیں ہوئی، ان سے تعلق پر فخرہے۔ میری شخصیت پر ان کے گہرے اثرات ہیں۔ انھوں نے کبھی اپنی مرضی ہم پرمسلط نہیں کی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے ان کی زندگی میں کچھ کرنا چاہا ہو اورانھوں نے مجھے روکا ٹوکا ہو۔ میں نے ان کاشعوری طور پر بھی اثر قبول کیا اور غیرشعوری طور پر بھی۔ وہ عالم آدمی تھے۔

علامہ اقبال ان کی علمیت کے بہت معترف تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے لیے ان کا نام اقبال ہی نے تجویزکیا تھا۔ خلیفہ صاحب کو کشمیر بہت پسند تھا۔ حیدرآباد میں تھے ، تب بھی ہر سال وہاں جاتے، حالانکہ کہاں جنوبی ہندوستان اور کہاں کشمیر۔ وہاں پرانھوں نے بہت خوبصورت مقام پر اپنا گھر بھی بنالیا تھا اور ان کا ادھر ہی رہنے کا ارادہ تھا۔ جب غلام محمد نے نئی مملکت کے قیام کے بعد انھیں ذمہ داری سونپنی چاہی تو انھوں نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا۔

ملک غلام محمد حیدرآباد دکن میں ممبرفنانس تھے، اور اسی زمانے سے والد سے ان کی دوستی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ قائم کیا تو والد کو اس کا نگران بنایا۔ والد کو پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلربننے کی بھی آفر ہوئی تھی، جس پرغلام محمد نے گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر سے ازراہ مذاق کہا کہ میں تمھاری مونچھیں مروڑ دو ں گا، اگرخلیفہ عبدالحکیم کو وائس چانسلر بنایا۔ والد ادارہ ثقافت اسلامیہ کے بانی ڈائریکٹرمقرر ہوئے اور پھر اپنی وفات تک یعنی دس سال اس حیثیت میں کام کیا۔ انھوں نے اس ادارے کے لیے ان تھک محنت کی۔

اپنے اردگرد ایسے لوگ جمع کئے جو علمی منصوبوں میں ان کا ساتھ دے سکیں۔ خود بھی بہت سا علمی کام کیا۔ ان کے دورمیں جو کام ہوا، اب تک بنیادی نوعیت کا کام وہی ہے۔ جرمنی میں ہائیڈل برگ سے انھوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ میں ان کے نام پر یادگاری لیکچر کراتی ہوں اور اب میں نے ان کے نام سے ویب سائٹ بنائی ہے، جس پران کی تمام کتابیں اور ان سے متعلق بہت کچھ لکھا پڑھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔