راولاکوٹ کے دو سیاحتی نگینے جھیل بنجوسہ اور تولی پیر

مکران کے ساحلوں سے لے کر ہمالیہ کے پہاڑوں تک ہر قطعہ ایک پوری داستان ہے، مگر ارض کشمیر کا حسن لازوال، جان گداز ہے۔


محمد کاشف علی September 10, 2016
اس خطہ کا قدرتی اور لازوال حُسن جیسے ہزاروں لاکھوں برسوں سے مراقبہ میں ہے کہ کوئی تو آئے اس حُسن کی دیوانگی کی زد میں۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں سیاح تو کم پڑ سکتے ہیں مگر سیاحتی مقامات نہیں۔ مکران کے ساحلوں سے لے کر ہمالیہ کے پہاڑوں تک ہر قطعہ ایک پوری داستان ہے، حسن کی تجسیم ہے مگر ارض کشمیر کا حسن لازوال، جان گداز ہے۔ یوگی بابا کہہ رہے تھے کہ اس خطہ کا قدرتی اور لازوال حُسن جیسے ہزاروں لاکھوں برسوں سے مراقبہ میں ہے کہ کوئی تو آئے اس حُسن کی دیوانگی کی زد میں، لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر آج تولی پیر اور بنجوسہ جھیل کی باتیں ہی کافی ہیں۔

راولا کوٹ آزاد کشمیر کے پونچھ ضلع کا صدر مقام تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی ایک حسن کی دیوی کی چادر بھی ہے جس نے راولاکوٹ کے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ راولا کوٹ سطح سمندرسے تقریباً 5300 فٹ کی بلندی پر ہے، اتنی اونچائی کے بارے میں جان کر سمجھ آہی جاتا ہے کہ سر سبز دیوی نے لامحالہ چیڑ کو اپنی ردا بنا کر کیسے روالا کوٹ کے دوش پر پھیلا رکھا ہوگا ہے۔ راولا کوٹ میں سرسبز زمرد رنگ دیوی سے لب جنگل ملاقات کے مقامات تو اور بھی ہیں مگر بنجوسہ اور تولی پیر زبان زدِ عام ہیں۔

  • بنجوسہ جھیل


پاکستان کے وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد سے راولا کوٹ تقریباً 130 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کوہ نورد یا جنگل نورد کہوٹہ روڈ کے سنگی سینے پر مونگ دلتے ہوئے تین سے چار گھنٹوں میں راولاکوٹ کے ہمالیائی کوہستانی شہر پہنچ جاتے ہیں۔ اب آپ پیر پنجال میں ہیں اور اگر آپ بنجوسہ جھیل جا رہے ہیں تو راولا کوٹ سے کھائی گلہ تک کوئی 20 کلومیٹر تک مزید کسی گاڑی، جیپ کا قیدی رہنا پڑے گا، اور اس کے بعد کھائی گلہ سے بنجوسہ جھیل۔

بنجوسہ جھیل کا ایک منظر

بنجوسہ جھیل کیا ہے؟ یہ قدرت و انسان کی ایک مشترکہ کاوش ہے۔ قدرت نے بنجوسہ کے مقام پر (جسے مقامی چھوٹا گلہ بھی کہتے ہیں) زمین پر خاکی میخیں گاڑیں پھر بہت نفاست سے ان میخوں پر سبز قالین بچھایا اور تراوٹ کے لئے ''کُن'' اور''فیکون'' کا ترانہ ربوّی سنایا، اور پھر حضرت انسان نے بنجوسہ کے پہاڑوں سے گنگناتے چشموں کے آگے بند باندھا تو جھیل بنجوسہ نے وجود پایا۔



بنجوسہ سے جنڈالی کو جاتا خوبصورت راستہ



نجوسہ کا نواحی جنگل

بنجوسہ جھیل کو پائن کے درختوں نے اپنی سر سبز گود میں پناہ دے رکھی ہے اور ان ہی درختوں پر کوہستانی پکھیروؤں کی آماجگاہیں بھی ہیں، جو صبح سویرے نہایت سریلے سُر چھیڑ کر آپ کو صبح بخیر کا پیام دیتے ہیں اور آپ جھیل کی اطراف میں اپنے ہوٹل یا سرکاری ریسٹ ہاؤس سے جماہی لیتے قدرت کی عطا کردہ انتہائی خوبصورت اور پُرسکون صبح میں سانس لیتے اور جھیل کنارے اپنے عکس کو چھوٹے سنگریزوں سے دائروں میں تبدیل کرتے ہیں۔



بنجوسہ جھیل

کسی درخت کی اوٹ میں خود کھانا پکاتے ہیں یا جھیل میں کشتی رانی کرتے ہیں۔ کچھ گرم دوپہرمیں بھی اگر آپ جھیل کنارے نشست جمائیں تو سبز پائن کے جنگل سے ہو کر آنے والی ہوائیں آپ کی پلکیں بوجھل کردے گیں۔ جھیل کنارے اُترتی شام کا زرد سورج آپ کو الوادع کہتا ہے اور اپنا سارا روپ رنگ جھیل کی سطح پر پھیلا کر اس کے سیال کو سونے جیسا بنا دیتا ہے۔



بنجوسہ جھیل رات کا منظر

اسی وقت کوہستانی پکھیرو اپنے گھروں کو سدھارتے ہیں۔ جھیل کنارے کی سرد ہوائیں آپ کو اپنی آمجگاہ جانے کا پیغام دیتی ہیں یا کم از کم اتنا تو کہتی ہیں کہ ''خود کو گرم چادر میں لپیٹ لو''۔ جھیل بنجوسہ کے نواح میں جنگل نوردی ایک اچھا مشغلہ ہے اور اگر جنڈالی گاؤں تک ہو آئے تو کیا جاتا ہے، کچھ یادیں اور جمع ہوجائیں گی۔

  • تولی پیر


راولاکوٹ جانا اور تولی پیر نہ جانا، ایک کوہ نورد کو ایسی بے رخی جچتی نہیں، تو جناب آپ ایسا کوئی طعنہ نہ سنیں اور ایک نئی صبح میں، ایک من چلے کوہ نورد کی طرح آرام سے بنجوسہ (چھوٹا گلہ) سے کھائی گلہ اور اور وہاں ساے تولی پیر کو روانہ ہوں جو کہ سطح سمندر سے تقریباً 8850 فٹ بلندی پر ہے۔ کالا قالین (کارپیٹڈ روڈ) جو کہ کچھ جگہوں سے ادھڑا بھی ہوا ہے، آپ کو کھائی گلہ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور تولی پیر تک پہنچانے کے لئے خود کو آپ کی سواری کے نیچے دان کر دیتا ہے۔



تولی پیر، برف سے ڈھکے کوہسار

کھائی گلہ سے جب کوہ نورد تولی پیر کا سفر شروع کرتا ہے تو اسے ذرا مختلف قسم کی لینڈ اسکیپ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک تو خود کو پائن کے جنگل میں گھرا دیکھتا ہے اور جب آپ کھائیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں آپ کو پہاڑوں کی ڈھلانوں پر روائتی کشمیری گھر ایستادہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ روایتی گھر اب بہت کم کم منظر کا حصہ بنتے ہیں کہ 2005ء کے آفت انگیز زلزلہ نے اکثر گھروں کو زمین بوس کردیا تھا اور اب ٹین کی چھتوں والے زیادہ گھر ہی منظر کا حصہ ہیں۔ انہی گھروں سے جب صبح صبح دھواں نکلتا نظر آتا ہے تومحسوس ہوتا ہے کہ زندگی سانس لے رہی ہے۔ تولی پیر، جو کہ شہری ماحول سے زرا ہٹ کے ہے، اُس کے راستے میں کوہ نورد کو کشمیری خواتین اپنے سروں پر پانی کے برتن رکھے نظر آتی ہیں جو دور کہیں ندی نالے سے زندگی کی تار جوڑے رکھنے کے لئے آبِ حیات لاتی ہیں، اسکول جاتے بچے اور چراگاہ کو جاتے ریوڑ بھی تو راہ میں ملتے ہیں اور اوپر آپ کے ساتھ سفر کرتے بادل اور پرندے۔



کھائی گلہ سےایک گھنٹہ سے کم کی بھی مسافت طے کرکے آپ ایک کھلے ڈھلے کوہستانی چراگاہ تولی پیر پہنچے ہیں تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ تولی پیر کی تیز ہواہیں خوش آمدید کہتی ہیں اور آپ اپنے چاروں طرف ایستادہ پہاڑوں کو تقریباً اپنے برابر پاتے ہیں۔ جو کوہ نورد اس چراگاہ سے قبل پایہ (شوگران) یا لالہ زار کی چراگاہیں دیکھ چکے ہیں اُن کو تولی پیر کے پہاڑ، ہواہیں، سبزہ گاہیں اور گل بوٹے مانوس مانوس سے لگے گیں۔

تولی پیرمرغزار پر اگر جوتے اتار دئے جائیں تو نیچے بچھا سبز قالین بہت نرمی سے پاؤں پر بوسے دے گا اور نرم و تروتازہ گھاس کی تراوٹ آنکھوں میں سرائیت کرجائے گی۔



اگر تو آپ نے سیاحتی موسم (جون تا اگست، ستمبر) میں تولی پیر یاترا کا پلان بنایا ہے تو آپ تھکن کے بعد کسی بھی عارضی ڈھابے سے چائے، پانی، کھانا وغیرہ سے شکم پری کرسکتے ہیں مگر یوگی بابا تو کہہ گئے ہیں کہ ایک اچھی نسل کا آوارہ گرد اپنی کوہستانی منزل پر پہنچ کر مراقبہِ فطرت میں کھو جاتا ہے اور شکم پُری تو کیا اکثر سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتا، تو جناب تولی پیر کا حسن آپ کو مسحور اور محبوط کردیتا ہے، اور آپ کو دعوت دیتا ہے، ''اے کوہ نورد! تو نے مجھے سبز لبادے میں تو دیکھ لیا، کبھی آ، اور مجھے سمیں بدن بھی تو دیکھ،



تولی پیر سرما میں





آ، اور دیکھ میں کیسے سرما میں سبز چادر کو سفید چادر سے بدل لیتا ہوں اور برف کی دبیز چادر اوڑھ کر سو جاتا ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں