مشینی دور میں ادب کا مطالعہ اور نوجوان

شمائلہ شفیع  اتوار 9 دسمبر 2012
ٹیکنالوجی نے زندگی کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ تنہائی کا ساتھی بھی بنادیا ہے۔ فوٹو : فائل

ٹیکنالوجی نے زندگی کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ تنہائی کا ساتھی بھی بنادیا ہے۔ فوٹو : فائل

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کے مزاج کو سمجھنا مقصود ہو تو اس کی زبان و ادب کا مطالعہ کرو۔ ادب میں وہ طاقت ہوتی ہے جو قوم کے مزاج کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماضی میں اس کی مثالیں انقلاب فرانس اور انقلابِ روس کی صورت میں نظر آتی ہیں، جہاں ادب نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔

بیسویں صدی کو اگر مشینی دور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ بھاپ کے انجن سے لے کر آج کی جدید ایجادات تک حضرت انسان نے ہر دور میں ترقی کی منازل طے کی ہیں، لیکن ٹیکنالوجی نے زندگی کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ تنہائی کا ساتھی بھی بنادیا ہے۔ اب انسان گھنٹوں مشینوں کے ساتھ تو ہر پل گزار سکتا ہے، لیکن جیتے جاگتے انسان کے ساتھ وقت گزارنا دوبھر ہوگیا ہے۔ بقول اقبال:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی ہر لمحہ، پل پل رنگ بدلتی زندگی نے جہاں انسان کا دوسرے انسان کے لیے وقت نکالنا مشکل کردیا ہے، ایسے میں مطالعے کے لیے کیونکر وقت نکالا جاسکتا ہے۔ کیا ٹیکنالوجی، جو ہر سو اپنے کرشمے سے عقل کو حیران کررہی ہے، کتاب کی کمی کو پورا کرسکتی ہے؟ ادب کے مطالعے کی بات تو اس صورت میں کی جاسکے گی، جب کتاب کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے گا۔ اگر بات نوجوانوں کی ، کی جائے اور یہ سوال ان سے پوچھا جائے کہ فی زمانہ کتاب سے دوری کی وجہ کیا ہے؟ تو کمال سادگی سے جواب یہ ملتا ہے:

’’یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، ٹی وی، کمپیوٹر اور نیٹ فقط انگلی کی جنبش کی محتاج ہے اور ایسے دور میں کتاب اگر بوجھ لگتی ہے تو شکوہ کیسا؟ اور کتاب کی کمی کو تو نیٹ بھی پورا کررہا ہے، ایسی کونسی معلومات ہیں جو نیٹ پر دستیاب نہیں۔ معلومات کا خزانہ تو نیٹ بھی ہے، تو کتاب کیوں ضروری ہے؟‘‘

1

اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا!!

رہی سہی کسر ایک دو بالشت کے موبائل نے پوری کردی ہے۔ غالباً جب گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کیا ہوگا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ٹیلی فون کی موجودہ شکل موبائل فون کی طرح بھی ہوسکتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ موبائل فون نے رابطے کے ذریعے کو سہل بنادیا ہے، لیکن کوئی پوچھے ان موبائل فون بنانے والوں سے کہ موبائل فون میں کیلکولیٹر کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن ایم پی تھری ، میموری کارڈ اور مختلف اقسام کے کیمرے کی کیا ضرورت ہے۔ موبائل فون کا تعلق رابطے سے ہوتا ہے، لغویات سے نہیں۔
ستر اور اسی کی دہائی میں جو نوجوان ہاتھ میں ابن صفی کی کتابی لیے کھمبوں سے ٹکراتے پھرتے تھے، آج موبائل فون ہاتھ میں لیے یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں اور سونے پر سہاگہ اگر مطالعہ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ارشاد صادر ہوتا ہے۔ میاں!

’’راگنی بے وقت کی گاتے ہو کیا‘‘

جہاں نوجوان کتاب کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے، ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ادب کا مطالعہ کریں گے؟ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ ادب کیا ہے؟ تو شاید ہی کسی کو معلوم ہو یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ ترقی پسند ادب کیا ہے؟ ادیب کی اہمیت؟ یہ معاشرے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ اور قوم کی سوچ پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے؟

ادیب وہ شخص ہوتا ہے جو معاشرے میں ہونے والی محرومیوں کو شدت سے محسوس کرکے قلم کی طاقت سے ادب تخلیق کرتا ہے، بعض اوقات ہم سامنے کی چیز کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے یا وہ مکمل طور پر ہمارے فہم و ادراک کی گرفت میں نہیں آپاتی۔ ایسے حالات میں ادیب کردار ادا کرتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بہترین ادب تخلیق ہوا ۔ قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘ ’’سیتا ہرن‘‘ قدرت اﷲ شہاب کا ’’یاخدا‘‘ انتظار حسین ’’آگے سمندر ہے‘‘ ’’بستی‘‘ ممتاز مفتی کا ’’علی پور کا ایلی‘‘ ’’الکھ نگری‘‘ خدیجہ مستور ’’آنگن‘‘ سعادت حسن منٹو کا ’’سیاہ حاشیے‘‘ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کرشن چندر کا ’’غدار‘‘ عبداﷲ حسین کی ’’اداس نسلیں‘‘ قابل ذکر ہیں، لیکن آج کے نوجوان نسل ان سب سے انجان ہیں۔ بلاشبہ نوجوان نسل تقسیم وطن کے درد کو اس شدت سے محسوس نہیں کرسکتے جو ہمارے آبائو اجداد نے سہے، لیکن ادب کے ذریعے ہم اس درد کو ایک بار محسوس کرسکتے ہیں یعنی ادب تو ہمارا رشتہ ماضی سے جوڑ دیتا ہے اور ماضی انسان کی ایسی میراث ہے جس سے فرار ممکن ہی نہیں ہے۔ ادب تو زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس سے کس طرح راہ فرار حاصل کریں گے؟

بلاشبہ اب اس معیار کا ادب تخلیق نہیں ہورہا اور ہر جگہ با آسانی یہ جملہ لکھ دیا جاتا ہے کہ ’’ ادب پر جمود طاری ہے۔‘‘ لیکن ہم اس بات کو بنیاد بناکر ادب کے مطالعے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہماری نئی نسل اگر عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو ، غلام عباس، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، آغا حشر، راجندر سنگھ بیدی ، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی ، منشاء یاد ، منشی پریم چند، قراۃ العین حیدر اورکرشن چندر سے واقف نہیں تو اس نسل کی ذہنی سطح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسکول کی کورس کی کتابوں میں بند امتیاز علی تاج، غلام عباس اور سعادت حسن منٹو کی منتخب تحریروں کو ’’رٹنا‘‘ ادبی ذوق کی پہچان نہیں۔

نوجوانوں سے ہر کوئی امید رکھتا ہے۔

تو ایک امید اور سہی… !! بھاگتی دوڑتی زندگی میں موبائل کے ساتھ کتاب کو بھی جگہ دیں، پھر دیکھیں زندگی کیسے سنورتی ہے۔ کیوں کہ :
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔