خـــیـام سـرحـدی

محمد جاوید یوسف  ہفتہ 2 فروری 2013
خیام سرحدی نے اپنی پرفارمنس سے کرداروں کو حقیقت کا روپ دیا۔ فوٹو : فائل

خیام سرحدی نے اپنی پرفارمنس سے کرداروں کو حقیقت کا روپ دیا۔ فوٹو : فائل

 پاکستان پر قدرت کی خاص رحمت ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے انمول ہیرے عطا کئے ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

اگر ہم شوبز انڈسٹری کی بات کریں تو یہاں پر ایکٹنگ ‘ ڈائریکشن ‘ پروڈکشن ‘گائیکی اور رائٹنگ سمیت تمام شعبوںمیں خداداد صلاحیتوں کی شخصیات ملتی ہیں کہ جنہوں نے اپنے کام کے ذریعے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ جو نئے آنیوالوں کے لئے نئی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

ایکٹنگ کے میدان میں ایک نام ورسٹائل اداکار خیام سرحدی کا بھی ہے جنہوں نے اپنی پرفارمنس سے کرداروں کو حقیقت کا روپ دیا۔اپنے انداز کا یہ خوبصورت فنکار ہمیں 3فروری 2011ء کو اچانک چھوڑ کر چلا گیا کہ کسی کو ان کی موت کا یقین ہی نہیں ہورہا تھا‘ ان کے ساتھی فنکاروں سمیت ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ ایک روز قبل تک جو شخص ہنستا مسکراتا اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ملا ہو، اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے… یقین نہیں آرہا ‘بہرحال ایک روز ہر کسی کو اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ہے۔

خیام سرحدی اپنی شخصیت میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اپنے وقت کے معروف فلمی ڈائریکٹر ضیاء سرحدی کے بیٹے تھے جنہوں نے پاکستان آکر اچھوتے موضوع پر دو فلمیں ’’ہم لوگ‘‘ اور ’’راہ گزر‘‘ بنائیں تھیں لیکن یہ دونوں فلمیں بزنس کے اعتبار سے کامیاب نہ ہوسکیں ۔ ضیاء سرحدی انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے ‘مگر خیام سرحدی پر اداکار اورہدایتکار بننے کا جنون سوار تھا ۔آخر والد کو بیٹے کے شوق کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے ایکٹنگ ،ڈائریکشن اور پروڈکشن کا کورس کروانے کیلئے یونان بجھوا دیاجہاں سے ڈپلومہ کرنے کے بعد تھیٹر سے وابستہ ہوگئے‘ جہاں کمال احمد رضوی اورنعیم طاہر سمیت دیگر تھیٹر کے معروف فنکاروں کے ساتھ کام کرتے رہے۔انہیں اردو پڑھنی نہیں آتی تھی لیکن رومن اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔

اس لئے انہیں سکرپٹ اردو رومن میں لکھ کر دیا جاتا۔اس کے بعد ریڈیو جوائن کر لیا، جہاں سے پی ٹی وی کے پروڈیوسر یاور حیات نے ٹی وی ڈراموں میں متعارف کروایا۔ پی ٹی وی میں انہوں نے ’’وارث‘‘، ’’ریزہ ریزہ‘‘، ’’من چلے کا سودا‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’لازوال‘‘ ،’’سورج کے ساتھ ساتھ ‘‘ سمیت ان گنت ڈرامہ سیریلز میں کام کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے تین فلمیں ’’اک سی ڈاکو‘‘،’’بوبی‘‘ اور ’’مہک‘‘ میںکام کیا ،لیکن انہیں فلمی ماحول اچھا نہ لگا تو انہوں نے مزید فلمیں کرنے کی بجائے خود کو ٹی وی ڈراموں تک محدود کرلیا۔ وفات سے قبل وہ بھی دوسرے فنکاروں کی طرح کام کی وجہ سے کراچی میں ہی رہ رہے تھے ۔

انہوں نے دو شادیاں کیں جن میں سے پہلے عطیہ اشرف اور دوسری شادی اداکارہ زمرد خان کی بہن صاعقہ سے کی جن سے ان کی تین بیٹیاں ہیں۔ اداکاری کے علاوہ گاڑیوں کا شو روم بھی تھا۔ خیام سرحدی نے بانی پاکستان محمد علی جناح کے حوالے سے بننے والی فلم ’’جناح‘‘ میں سردار عبدالرب نشتر کا کردار نبھانے کے علاوہ متنازع فلم ’’دی بلڈ آف حسین‘‘ میں بھی ایک پولیس مین کا کردار نبھایا تھا۔ اپنے انداز کا یہ منفرد فنکار تین فروری 2011ء کو دل کا دورہ پڑنے پر خالق حقیقی سے جاملے۔

ان کی دوسری برسی کے موقع پر مختلف ساتھی فنکاروں نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ عرفان کھوسٹ نے کہا کہ خیام سرحدی اداکاری اپنے انداز کا فنکار تھا ‘جس نے جو بھی کردار کیا اس میں جان ڈال دی۔ قوی خان نے کہا کہ فن اداکاری کے حوالے سے ایک سچے فنکار تھے جن کے ساتھ میرا ایک طویل ساتھ رہا۔ اداکار طلعت حسین نے کہا کہ مرحوم نے فن کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو نئے آنے والوں کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔

عجب گل نے کہا کہ مرحوم پیدائشی فنکار تھے ‘ان کے ساتھ متعدد سٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا یہ لمحات میرے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں۔ اداکار غلام محی الدین نے کہا کہ وہ میرے سینئر اوربڑے بھائیوں کی طرح تھے ‘ان کا خلاکبھی پر نہیں ہوسکتا۔ اداکارہ کنول نے کہا کہ خیام سرحدی ورسٹائل فنکار ہونے کے ساتھ ایک ملنسار انسان بھی تھے جو اپنے ساتھ کام کرنے والے جونیئرزکی حوصلہ افزائی کرتے تھے ان کی وفات سے ہم ایک باصلاحیت فنکار سے محروم ہوگئے۔ اداکار وپروڈیوسر نبیل نے کہا کہ وہ ہمارے لئے انسٹیٹیوٹ تھے جن کے کام کو دیکھ کر مجھ سمیت بہت سے نئے آنے والے سیکھتے ہیں۔ عدنان صدیقی نے کہا کہ وہ اپنے انداز کے ایک منفرد فنکار تھے ‘جنہوں نے کردارنگاری میں اپنا ہی ایک مقام بنایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔