ریمنڈ ڈیوس گرفتاری سے رہائی تک کیا کچھ ہوا

امریکا کے قانون کےمطابق ڈیوس محب وطن شہری ہوسکتے ہیں مگر پاکستان میں انکا کردار ایک جاسوس اور قاتل کےطور پر سامنے آیا


منصور مانی July 05, 2017
مجھے نہیں معلوم کہ اِس مقدمے میں انصاف کے کتنے تقاضوں کو پورا کیا گیا؟ ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ ریمںڈ ڈیوس کی رہائی کے فوراً بعد شمالی وزیرستان پر ایک ڈرون حملہ ضرور ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

ریمنڈ ڈیوس بلآخر تقریباً چھ (6) برس بعد ایک ایسی کتاب لکھنے میں کامیاب ہوگئے جس نے دنیا میں کہیں تہلکہ مچایا ہو یا نہ ہو، مگر پاکستان میں ضرور ہلچل پیدا کردی ہے۔ کتاب کے مندرجات پر یقین کرنا، اُن کو من و عن تسلیم کرنا بہرحال ضروری نہیں کیونکہ صاحبِ کتاب کا کردار امریکا، پاکستان اور افغانستان میں ایک ایسے سیکیورٹی ٹھیکے دار کا رہا ہے جو اپنا ٹھیکہ بچانے کے لیے ہر اخلاقی حدود کو لانگنا جائز سمجھتا ہے۔ اپنے ملک کے قانون اور اخلاقی ضابطوں کے مطابق ڈیوس ایک محبّ وطن امریکی ہوسکتے ہیں مگر پاکستان میں اُن کا کردار بہرحال ایک جاسوس اور قاتل کے طور پر سامنے آیا۔



27 جنوری 2011ء، ڈیوس کے لیے بے شک ایک تکلیف سے پھرپور دن ہوگا مگر پاکستان میں بسنے والے کچھ خاندان کے لیے یہ دن قیامت سے کم نہیں تھا۔ کیا سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے کہ ڈیوس نے اپنی کتاب میں بیان کیا؟ کتاب میں تضاد ہو یا نہ ہو، لیکن پوری کارروائی کے دوران ڈیوس کے بیانات میں کئی جگہ تضاد سامنے آیا، جوکہ اُس زمانے میں چلنے والی خبروں سے صاف ظاہر تھا۔ ڈیوس نے لکھا کہ اُن پر گن تانی گئی اور اِس سے پہلے کہ وہ قتل ہوتے اُنہوں نے اپنے دفاع میں دو نوجوانوں کو قتل کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں نوجوان ڈکیت تھے اور اُن پر پہلے بھی کئی مقدمات درج تھے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق، ایسا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ موٹر سائکل پر سوار نوجوانوں کے پاس پستول تھی مگر چیمبر گولیوں سے خالی تھا، اور تقریباً بیس (20) سے زائد عینی شاہدین نے یہ بیان دیا کہ نوجوانوں نے گن نہیں تانی تھی۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ ریمنڈ ڈیوس نے جس اسلحہ سے نوجوانوں کا قتل کیا وہ غیر قانونی تھا اور جو گاڑی ڈیوس کو بچانے کے لیے آئی اُس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔





27 جنوری کے آغاز سے ہی ریمنڈ ڈیوس کیس پورے ملک میں ایک ایسا کیس بن گیا جس کی بازگشت طاقت کے ایوانوں سے لے کر گلیوں تک گونجنے لگی۔ حکومت، اپوزیشن، سیاست دان، میڈیا، عدلیہ اور فوج، یہ کیس سب کا ہی امتحان تھا۔ اگرچہ کیس بہت سادہ اور آسان تھا مگر انصاف کی فراہمی ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔ مدعی کمزور تھا اور فریق بے پناہ طاقتور، صرف چھیالیس (46) دن چلنے والے اِس مقدمے نے پاکستان کے ہر ادارے کا دم خم عوام پر ظاہر کردیا۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے مصاحبوں نے اِس کیس میں اہم کردار ادا کیا۔

آصف علی زرداری بطور صدرِ مملکت بہرحال اِس کیس سے زیادہ پریشان نہیں تھے، کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ اِس کیس سے جڑا ہر ملبہ یا تو پنجاب حکومت پر گرے گا یا پھر فوج پر۔ جنرل اشفاق کیانی (ر) جو اُس وقت آرمی چیف تھے اور جنرل شجاع پاشا جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، وہ بھی کیس کے حوالے سے بظاہر خاموش تھے۔ آصف علی زرداری نے کیس کی نوعیت کو اول دن ہی بھانپ لیا تھا اور اُن کی پالیسی تھی کے ابھی جیسا چل رہا ہے چلنے دو، اور معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دو۔ اُس وقت کے صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے اُن دنوں ایک بیان جاری کیا کہ
'ہم کوئی دباو قبول نہیں کریں گے، سفارتی استثنٰی سے متعلق درخواست بھی عدلیہ کی صوابدید پر ہے۔'



اُدھر ابھی تک یہ طے نہیں ہو پارہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے یا نہیں؟ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ بڑھ چڑھ کر عوامی امنگوں کے مطابق بیان دے رہے تھے، بلکہ انہوں نے تو ریمنڈ ڈیوس پر جاسوس ہونے کا الزام بھی عائد کردیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کے کیمرے سے کئی حساس مقامات کی تصاویر بھی نکلی تھیں اور اُس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اُس نے کئی مدارس کا بھی دورہ کیا ہے۔



وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف قتل والے نوجوان عباد الراحمن اور فہیم کو قوم کا بیٹا قرار دے چکے تھے اور اعلان کیا تھا کہ کچھ ہوجائے خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ امریکا کو مگر یقین تھا کہ ریمنڈ ایلن ڈیوس کو رہا کردیا جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اُس کو یہ یقین دہانی کس نے کروائی تھی؟ حالانکہ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دو جیسے احتجاج جگہ جگہ ہونے لگے تھے۔

3 فروری 2011ء تک میڈیا میں بے تحاشہ شور مچایا گیا اور قوم کو یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ ہر صورت انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کرنے سے روک دیا، جس کے بعد امریکا نے بے پناہ دباو ڈالنا شروع کیا، اور شاید یہ ہی وہ وقت تھا جب اِس دباو کے عوض بہت کچھ لیا جاسکتا تھا یا لیا گیا۔ حکومت اور اپوزیشن بظاہر پُرعزم تھے کہ کسی بھی قسم کے سفارتی دباو اور امریکا کی جانب سے امداد روکنے کی دھمکیوں کو خاطر میں لائے بغیر کیس کو حل کیا جائے گا۔





گھنٹی بج چکی تھی، صدر اوباما نے ایک بیان جاری کیا کہ پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار مان کر رہا کرے۔ رحمٰن ملک نے کیس سے متعلق فائل اپنے قبضے میں لے لی اور بیان دیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا سفارتی پاسپورٹ پنجاب حکومت کے پاس ہے جبکہ ریمنڈ ڈیوس کے ویزے کی درخواست ایجنسیوں کے بعد خود انہوں نے منظور کی۔ اُدھر پراسیکیوٹر پنجاب نے سفارش کی کہ ملزم پر جاسوسی کا مقدمہ بھی چلایا جایا، لیکن 5 فروری کے بعد دفتر خارجہ نے میڈیا کو کسی بھی قسم کی تفصیلات دینے سے نکار کردیا، یوں ہوا کا رُخ بدلنا شروع ہوگیا۔









ہوا بدل چکی تھی، ناجائز اسلحہ کیس ایف آئی آر نمبر 11/49 میں ریمنڈ ڈیوس کی ایک لاکھ روپے کےعوض ضمانت منظور کرلی گئی، ملزم کو عدالت میں وقت سے پہلے پیش کیا گیا، جبکہ مدعی کے وکیل منظور بٹ، ضیاء انصاری اور اظہر صدیق کے پہنچنے سے پہلے ہی پولیس ملزم کو واپس لے جا چکی تھی۔

مطلق العنان سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ اب فکر یہ تھی کے کس طرح ریمنڈ ڈیوس سے جان چھڑائی جائے؟ رحمٰن ملک اِس کام کے لیے موزوں نہیں تھے اِس لیے کہا یہ جاتا ہے کہ اِس کام کا بیڑہ جنرل پاشا نے اُٹھایا، جن کی مدت ملازمت 18 مارچ 2011ء کو ختم ہو رہی تھی۔ جنرل پاشا، سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور عمران خان کے دھرنوں کے حوالے سے بھی آپ کا نام دبے دبے الفاظ میں لیا جاتا تھا۔ میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی جنرل پاشا پر کئی سوالیہ نشان تھے۔

جنرل پاشا، امریکی سفیر کمیرون منڑ، کارمیلا کونرائے، صدر زرداری، جان کیری، ہلیری کلنٹن، رحمٰن ملک، جنرل کیانی، رانا ثناء اللہ، شہباز شریف اور نواز شریف ریمنڈ ڈیوس کیس کے اہم کردار تھے۔ ڈوریں اِنہی کے کہنے پر ہلنی تھیں۔

9 فروری 2011ء کو مقتول فہیم کی بیوہ نے گولیاں کھا کر خود کشی کرلی۔ مرنے سے پہلے اُس نے واضح طور پر موقف اختیار کیا تھا کہ خون کا بدلہ خون ہے۔ اِس موقف کے بعد دباو ایک بار پھر بڑھ گیا، جس کے بعد آرمی چیف، وزیرِاعظم اور صدر کی ملاقات ہوئی اور ایک بیانیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے گا، مگر در پردہ کچھ اور ہی چل رہا تھا۔





18 فروری سے سیاسی ماحول گرم ہونا شروع ہوگیا۔ پنجاب حکومت سے پیلپز پارٹی کے وزراء فارغ کردیے گئے۔ دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنے لگی، ججز کی توسیع والے معاملے پر بھی گرما گرمی بڑھ گئی۔ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق آرمی چیف خلیجی ریاستوں کے دورے پر چلے گئے، اور کہا گیا کہ وہاں اُن کی ملاقات امریکی ہم منصب سے ہوئی مگر اِس بات کی تردید اور توثیق کسی بھی سرکاری ذرائع سے نہ ہوسکی، شاید یہ افواہ تھی!

4 مارچ 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے سفارتی استثٰنی پر درخواست کو مسترد کردیا گیا، مگر ریمنڈ دیوس پریشان نہیں تھے اور اِس کا اظہار وہ اپنے رویے سے ظاہر کرتے رہتے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کا رویہ جیل حکام کے ساتھ بہت بدتمیزی والا تھا، کھانے کے حوالے سے جو بیان انہوں نے اپنی کتاب میں دیا ہے وہ اُس وقت کے بیانات اور خبروں سے کسی بھی صورت مماثلت نہیں رکھتا۔ خبروں کے مطابق تو ریمنڈ ڈیوس کو اکثر فائیو اسٹار ہوٹلز سے کھانا منگوا کردیا جاتا تھا۔



ریمنڈ ڈیوس کیس کو اسلامی قوانین دیت اور قصاص کے مطابق حل کرنے کے حوالے سے کام شروع ہوا مگر اِس میں سب سے بڑی رکاوٹ مقتولین کے ورثاء تھے جو اِس بات پر رضامند نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کے ورثاء پر دباو ڈال کر اُنہیں دیت کے لیے راضی کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی پر دباو ڈال کر اُسے خون بہا کے لیے رضامند کیا جائے تو کیا یہ خود انصاف کے خون کے مترادف نہیں ہوگا؟

ڈیوس کی رہائی کے بعد بیرسٹر ظفراللہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا حکم صادر کرنے والے دونوں ججز 'سیشن جج یوسف اوجلہ' اور 'مجسٹریٹ انیق انور چوہدری' کے خلاف توہینِ عدالت کے حوالے سے درخواست دائر کی۔ بیرسٹر ظفراللہ کا موقف تھا کہ دیت کے قانون میں ورثاء کی پہچان کے لیے 15 دن کا وقت درکار ہوتا، لیکن اِس کیس میں اِس نکتے کا خیال نہیں رکھا گیا، جبکہ ریمنڈ ڈیوس کا ایک کیس سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت تھا۔

ریمنڈ کی رہائی سے ایک روز قبل ہی نواز شریف دل کی تکلیف کے باعث لندن روانہ ہوچکے تھے اور اُن کے بھائی شہباز شریف اُن کی عیادت کے لیے بعد میں پہنچے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران میڈیا کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ جنرل پاشا دورانِ سماعت کمرہ عدالت میں رہے اور مسلسل اپنے موبائل پر مصروف نظر آئے۔ سیشن جج یوسف اوجلہ نے مقتولین کے ورثاء سے سوال کیا کہ کیا وہ دیت پر بنا کسی دباو کے رضامند ہیں؟ اثبات میں جواب پاکر انہوں نے دیت کی رقم ادا کی جو تقریباً 20 کروڑ سے زائد تھی۔ بس رقم ادا کرنے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا۔ دیت کی رقم کس نے ادا کی اِس پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ دیت کی رقم امریکا نے ادا نہیں کی۔





مجھے نہیں معلوم کہ اِس مقدمے میں انصاف کے کتنے تقاضوں کو پورا کیا گیا؟ ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ ریمںڈ ڈیوس کی رہائی کے فوراً بعد شمالی وزیرستان پر ایک ڈرون حملہ ضرور ہوا۔ پھر جنرل پاشا کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کی گئی اور جون میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔

شاید قومی مفاد کے حوالے سے کسی دباو کے آگے جھک جانے میں کوئی حرج نہیں، جھک جانے سے مگر غیرت پر حرف ضرور آتا ہے چاہے پانچ سال بعد کسی کتاب کی صورت ہی کیوں نہ ہو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

مقبول خبریں