استاد کا احترام اور حقوق

اساتذہ لائق عزت و تحسین ہیں۔ ماں باپ ہمیں دنیا میں لاتے ہیں، اور اساتذہ اچھی زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔


October 06, 2017
انسان کی فضیلت یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ مہربانی فرمائی کہ اسے قلم کے استعمال کا طریقہ سکھایا۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: انسان جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ بدنصیب ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو، اس کا عطا کرنے والا بہ ہر حال قابلِ عزت ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو معلم فرمایا۔ آپؐ کے شاگرد صحابہ کرامؓ آپ کا جتنا احترام کرتے تھے، دنیا کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہارون الرشید نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالکؒ نے فرمایا : ''علم کے پاس لوگ آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقۂ درس میں آسکتے ہو۔''

خلیفہ آیا اور حلقۂ درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

امام مالکؒ نے ڈانٹ پلائی اور فرمایا: ''خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے۔'' یہ سنتے ہیں خلیفہ مؤدب کھڑا ہوگیا۔

استاد کی حیثیت روحانی باپ کی ہے۔ اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر۔ ہر عظیم انسان کے دل میں اپنے اساتذہ کے احترام کے بے پایاں جذبات ہوتے ہیں یہی اس کی عظمت کی دلیل ہیں۔

اساتذہ لائق عزت و تحسین ہیں۔ ماں باپ ہمیں دنیا میں لاتے ہیں، اور اساتذہ اچھی زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ آج کے جدید معاشرے میں استاد کی قدر و عظمت کو انتہائی درجے تک ناپید کر دیا گیا ہے، استاد کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کا وہ صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ والدین کے ساتھ استاد کا بھی ادب و احترام لازم قرار دیا گیا ہے۔ استاد اس ہستی کا نام ہے جو اپنے شاگردوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام تک پہنچاتے ہیں۔

جس طرح والدین کے احسانات کا بدل ادا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح استاد کے احسانات کا بھی بدل ادا نہیں ہوسکتا اور جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہیں اسی طرح روحانی والدین کے حقوق بھی ہم پر لاگو ہوتے ہیں۔ استاد کے احترام و حقوق میں سب سے اہم حق یہ ہے کہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اپنے استاد کی بتائی گئی ہر بات کو بہ غور سن کر اس کو ذہن نشین کرکے اس پر عمل کر ے اور علم کو دوسروں تک پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کرے، کیوں کہ ایک استاد کو حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب ان کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

استاد کی توجہ اور تربیت کے بغیر کوئی بھی کام یابی کے سفر پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جو جس قدر استاد کا ادب کر ے گا وہ اتنی جلد کام یابی کی شاہراہ پر گام زن ہوگا۔ استاد کے ساتھ ہمیشہ عاجزی و انکساری کے ساتھ گفت گو کرنی چاہیے۔ استاد کے ساتھ ادب کے ساتھ بات کرنا استاد کا حق ہے۔ یاد رکھیے جو لوگ اپنے استاد کا احترام نہیں کرتے وہ زندگی کے کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کرسکتے اور ہمیشہ اپنی منزل سے دور ہی رہتے ہیں۔ استاد کے حقوق میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ان کا ادب کیا جائے، ان کا حکم سنا جائے اور احترام کے ساتھ اس کی تعمیل کی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوق کو پہچان کر ان کا احترام کریں اور ان سے ہدایت حاصل کریں، جو بھی استاد کا ادب کرتا ہے خوش نصیبی اس کا مقدر ہوتی ہے۔

قوموں کی ترقی و عروج کے حوالے سے علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے، علم سے ہی آگہی میسر آتی ہے اور آگہی انسان کی تہذیب و ترقی کا زینہ بن کر اس کو عظمتوں و رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔ خالق کائنات کا انتہائی کرم ہے کہ اس ذات پاک نے انسان کو صاحب علم بنایا جو اس کی بلند ترین صفت ہے اور یہی نہیں بل کہ اس کو قلم کے ذریعے لکھنے کا فن بھی سکھایا، جو بڑے پیمانے پر علم کی ترویج و ترقی، اشاعت اور نسل در نسل اس کی بقا و تحفظ کا ضامن بنا۔ علم کو دل کی پاکیزگی، لطافت اور آنکھوں کے نور کا درجہ حاصل ہے۔ علم کو نعمت و دانائی سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم:

''جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی۔''

''پڑھو اور آپ کا رب بڑا ہی کرم والا ہے، جس نے سکھایا قلم کے ذریعے۔''

انسان کی فضیلت یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ مہربانی فرمائی کہ اسے قلم کے استعمال کا طریقہ سکھایا، لکھی ہوئی بات کسی عالم کی موت کے بعد بھی برقرار رہتی ہے اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو علم کے فن کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی قابلیت سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتی۔ اہل ایمان پر خالق کائنات کا انتہائی کرم اور فضل ہے کہ پہلا درس حیات معلم کائنات رسول اللہ ﷺ نے دیا۔ حضور نبی کریمؐ نے پڑھایا بھی، سکھایا بھی اور سمجھایا بھی، یعنی آپؐ نے دلوں کو علم و معرفت اور حکمت و دانائی کے نور سے ایسا منور کیا کہ پھر درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا جو تاقیامت جاری رہے گا۔

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا، مفہوم :

''اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے اور سختی کرنے والا بناکر نہیں بھیجا، بل کہ اللہ نے مجھے معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔'' (مسلم)

بلاشبہ علم، حصول علم اور معلّم کی مسلمہ اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے، دین اسلام میں تو علم، طالب علم اور معلّم کو خصوصی اہمیت سے سرفراز کرتے ہوئے انہیں انبیائے کرامؑ کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حصول عمل کے لیے گھر بار چھوڑنے کو بھی افضل قرار دیا گیا۔ سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''جو آدمی گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے نکلا تو وہ جب تک (گھر) واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔'' ( ترمذی' دارمی)

سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم :

''جو شخص ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں۔'' (مجمع الزوائد للطبرانی)

سیدنا علیؓ جنہیں ہمارے پیارے نبیؐ نے بابُ العِلم فرمایا' استاد اور علم کی اہمیت کے بارے میں آپؓ کا فرمان ہے، مفہوم: ''اس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے۔''

جناب امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں : ''میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں اور میں نے کبھی بھی اپنے استاد محترم کے گھر کی طرف اپنے پاؤں دراز نہیں کیے، حالاں کہ میرے گھر اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں اور میں ہر اس شخص کے لیے استغفار کرتا ہوں جس سے میں نے کچھ سیکھا ہے یا جس نے مجھے علم پڑھایا۔'' (الخیرات الحسان)

ناعمہ عاصم

مقبول خبریں