تعلیمی اداروں میں منشیات کے فروغ پرخفیہ ادارے کی رپورٹ بھی نظر انداز

صالح مغل  اتوار 22 اکتوبر 2017
 معلومات کے باوجود اینٹی نارکوٹکس اور پولیس سمیت کسی متعلقہ ادارے نے کارروائی نہیں کی۔ فوٹو: فائل

 معلومات کے باوجود اینٹی نارکوٹکس اور پولیس سمیت کسی متعلقہ ادارے نے کارروائی نہیں کی۔ فوٹو: فائل

راولپنڈی: وطن عزیز کو دور حاضر کے درپیش بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ منشیات کی لعنت ہے، جس کی وجہ سے کئی ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ منشیات کی لعنت کے شکار افراد کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ دیمک اب ہمارے تعلیمی اداروں کی دیواروں کو بھی چاٹنے لگی ہے، جہاں طالبہ و طالبات اس لت کا شکار ہو رہے ہیں۔

اگرچہ حکومت پاکستان و اینٹی نارکوٹیکس فورس سمیت متعلقہ اداروں کی کاوشوںکے پیش نظر پاکستان کئی سالوں سے پوپی (پوست) فری سٹیٹ کا درجہ رکھتا ہے لیکن چونکہ پڑوسی ملک افغانستان منشیات سے جڑی ہر آفریت کا منبع ہے اور وہاں تیار ہونے والی منشیات کا نصف کے قریب ٹرانزٹ کنڑی ہونے کے ناطے پاکستان کے راستے سمگل ہوتا ہے تو ایسے میں اس کا بڑا حصہ پاکستان میں ہی رہ جاتا ہے، جس کو مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں۔

منشیات کی اسمگلنگ اور اس کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کی روک تھام ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے، جس کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتوں و منشیات اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قائم اداروں کے ساتھ سوسائٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

منشیات اسمگلنگ کی روک تھام اور اس لعنت کا خاتمہ کرنے لیے ملک بھر سمیت راولپنڈی میں بھی اینٹی نارکوٹیکس فورس مکمل طور پر خود مختار ادارے کے طور پر برسرپیکار ہے تو وہیں پنجاب پولیس میں خصوصی طور پر منشیات اسمگلنگ کی روک تھام اور اس سے جڑے مقدمات کی تفتیش کے لیے این آئی یو ( نارکوٹیکس انوسٹی گیشن یونٹ ) بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔ ایک طرف ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹیکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ پنجاب معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے کے لیے متحرک ہے تو دوسری طرف پاکستان کسٹمز بھی میدان ہے۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران راولپنڈی/ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں سمیت نوجوانوں کو نشہ آور اشیاء و پارٹی ڈرگز سپلائی کرنے کی اطلاعات منظر عام پر آئیں تو اینٹی نارکوٹیکس فورس سمیت راولپنڈی پولیس نے معاملہ کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے چند اہم کارروائیاں کر کے گھناونے فعل میں مرتکب پاکر چند عناصر کو گرفتار بھی کیا، جن میں اینٹی نارکوٹیکس فورس کے ہاتھوں وفاقی دالحکومت اور راولپنڈی کے بڑے تعلیمی اداروں میں ٹوکن کے نام سے ایک نیا نشہ متعارف کرانے والے وحید نامی ملزم کی گرفتاری بھی شامل ہے، جس کے قبضے سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے کے منشیات کے ٹوکن برآمد کیے گئے لیکن تمام متعلقہ اداروں خواہ اینٹی نارکوٹیکس فورس ہو یا راولپنڈی پولیس اور اس کا نو تشکیل دیا گیا این آئی یو یونٹ یا پھر ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹیکس کنڑول ڈیپارٹمنت ہو یا پاکستان کسٹمز، تمام کے متحرک ہوتے ہوئے بھی راولپنڈی/ اسلام آباد کے حوالے سے انتہائی افسوسناک صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب خفیہ ادارے نے راولپنڈی/ اسلام آباد میں مخصوص گروہوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کے طالب علموں اور نوجوانوں کو منشیات اور نشہ آور اشیاء و پارٹی ڈرگ سپلائی کر کے ان ہی گروہوں اور مخصوص عناصر کی جانب سے گنجان آباد اور پوش علاقوں میں نائٹ ڈانس پارٹیاں منقعد کر کے نوجوان نسل میں بے راہ روی پھیلانے کے حوالے سے ہوشربا انکشافات پر مبنی مفصل سروے رپورٹ پنجاب حکومت ، سمیت انتظامیہ پولیس کے اعلی حکام کو ارسال کی، جس میں ان عناصر کے فون و شناختی کارڈ نمبر اور علاقوں کے نام تک تک درج تھے لیکن انتہائی مفصل رپورٹ کے باوجود کوئی بھی ادارہ گھناونے کاروبار سے جڑے عناصر کے خلاف کارروائی نہ کرسکا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مخصوص عناصر راولپنڈی اسلام آباد میں طالب علموں، اور نوجوانوں میںEcstasy Tablets  نشہ آور گولیاں،کوکین، اور آئس فروخت کرنے میں مصروف ہیں اور مذکورہ گروہ جن کے ساتھ لڑکیاں بھی ہیں مخصوص مقامات و رہاہشی علاقوں میں ڈانس پارٹیوں اور مبینہ طور پر غیر اخلاقی پارٹیوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ گرہوں کے کارندے مختلف اقسام کی Ecstasy Tablets  جنہیں ( یو پی ایس)، ( کرسٹل )، (ڈائمنڈ ) ، اور( ہنی کوم) کے نام کے لیبلز کے ساتھ سپلائی کیا جاتا ہے، ہر قسم کی ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی و فروخت کرنے میں مصروف ہیں، ڈرگ والی گولیاں، جرمنی، برطانیہ، اور ہالینڈ سے لائی جاتی ہیں، جن کی وہاں کے مطابق قیمت فی گولی دو سے چار ہزار روپے ہے۔

اسی طرح بتایا گیا کہ اطلاعات ہیں ایسے گولیاں خیبر پختون خواہ میں بھی بنائی جا رہی ہیں جبکہ کوکین اور آئیس پانچ ہزار روپے فی گرام فروخت کی جارھی ہے۔ رپورٹ میں گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کے پاس ایسی پانچ ہزار سے زائد گولیوں کی موجودگی کے متعلق بھی انکشاف کیا گیا اور بتایا گیا کہ گروہ کے مرکزی کردار نے راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں اپنے ایجنٹ وغیرہ بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان میں زیادہ تر نوجوان اور کالج و یونیورسٹی وغیرہ کے طالب علم ہیں اور بعدازاں وہ طالب علم اپنے ساتھیوں کو مذکورہ اشیاء پہنچاتے ہیں۔

حساس اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر اخلاقی و نائٹ ڈانس پارٹیاں جو عموما رات گئے سے شروع ہوکر صبح سویرے تک جاری رہتی ہیں، میں شرکت کرنے والے زیادہ تر جوڑے ، کالج یونیورسٹیوں کے طالب علم ہوتے ہیں، جو پارٹیاں منقعد کرانے والوں کے اعتماد کے ہوتے ہیں اور ایسی پارٹیوں میں ان کی تعداد پندرہ سے بیس اور زیادہ سے زیادہ ستر سے اسی کے درمیان ہوتی ہے۔ اسی طرح کی ایک نائٹ ڈانس پارٹی کے متعلق بتایا گیا جو حال ہی میں راولپنڈی اسلام آباد کے نواحی علاقے میں نئے بننے والے ڈانس کلب میں منقعد ہوئی، اس پارٹی میں پندرہ سے بائیس سال کے چوبیس لڑکیوں اور لڑکیوں نے شرکت کی جو صبح تک جاری رہی، پارٹی میں بار کی سہولت بھی دی گئی تھی، جہاں شراب سمیت Ecstasy Tablets اور دیگر منشیات و مشروبات بھی رکھے گئے تھے۔

اسی طرح رپورٹ میں ایسی پارٹیاں منعقد کرنے میں ملوث افراد کی تعداد ان کے نام اور فون نمبرز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ معلوم ہواہے کہ رپورٹ میں راولپنڈی/ اسلام آباد سمیت گرد و نواح میں ایسی سرگرمیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا کہ نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں میں ایسے رجحان سے نہ صرف بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے بلکہ والدین بھی اذیت کا شکار ہیں۔ رپورٹ کی روشنی میں ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے راولپنڈی پولیس کو ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ہدایات جاری کیں لیکن اس کے باوجود کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی اس سے بڑا ظلم اورکیا ہوسکتا ہے قوم کے معماروں کوتباہی کی جانب دھیکلا جارھا ہو اور ادارے اس کی نشاندہی بھی کر رھے ہوں لیکن پھر بھی کچھ کر سکنے والے پراسرار طور پر خاموش رہیں۔

لہذا ہم نے اگر معاشرے سے منشیات کا خاتمہ کرنا ہے تو سوسائٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے تمام اداروں کے مابین کوارڈنیشن کو فروغ دینا ہوگا، اداروں کے ساتھ ساتھ گھروں میں والدین اور درسگاہوں میں اساتذہ کو بچوں اور طالب علموں پر گہری نظر رکھنا پڑے گی، اسی ایک طریقے سے ہم اپنے کل کو اس لعنت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔