فاروق ستار کو مائنس کرنے کے محرکات اور اس کے نتائج

اب ایک طرف فاروق ستار اپنا دھڑا بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف عامر خان اپنا دھڑا بنا رے ہیں


مزمل سہروردی February 13, 2018
[email protected]

ایم کیو ایم کی دھڑے بندی پر نہ جانے اتنے سوال کیوں اٹھ رہے ہیں۔کیا کسی جماعت میں دھڑے بندی اور اس کی تقسیم در تقسیم کوئی نئی بات ہے۔ پاکستان کی خالق جماعت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ مسلم لیگ کے دھڑے سب کے سامنے ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے کہ مسلم لیگ کا الگ دھڑا بنا لیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بھی دھڑے بنے۔ اسی طرح ملک کی باقی جماعتیں بھی مختلف مواقع پر ایسے مراحل سے گزرتی رہی ہیں۔ دھڑے بنتے بھی رہے ہیں، ختم بھی ہوتے رہتے ہیں۔

فاروق ستار اور عامر خان کی لڑائی کوئی نئی نہیں ہے۔ آج جو ہورہا ہے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے، سب کی اس کی توقع تھی۔ ٹائمنگ پر بحث ہو سکتی ہے کہ جلدی ہوا ہے یا دیر سے ہوا ہے۔کچھ کا خیال ہے کہ یہ تقسیم تو بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ بہت جلدی ہو گئی ہے۔

یہ بھی بحث ہے کہ اس تقسیم کے پیچھے دوستوں کا بھی ہاتھ ہے۔ دوستوں نے اس کے لیے بہت محنت کی ہے۔ دوست کافی عرصہ سے اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح ایم کیو ایم پاکستان کی طاقت کو تقسیم کر دیا جائے۔ الطاف حسین کے مائنس ہونے کے بعد بھی ایم کیو ایم پاکستان کا بچ جانا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ ایک عمومی اندازہ یہی تھا کہ الطاف حسین کے بعد دال جوتیوں میں بٹ جانی چاہیے تھی لیکن ایم کیو ایم کی قیادت نے وہ مشکل مرحلہ نہائت خوش اسلوبی سے طے کر لیا تھا۔ اب تو مشکلات ختم ہوتی جا رہی تھیں۔ لیکن اس موقع پر تقسیم پیدا کر کے ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔

اب ایک طرف فاروق ستار اپنا دھڑا بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف عامر خان اپنا دھڑا بنا رے ہیں۔ ویسے تو فاروق ستار مہاجر نہیں میمن ہیں اور ایک میمن کے ہاتھ میں مہاجروں کی قیادت کیسے قبول کی جا سکتی تھی۔ الطاف حسین نے تو اپنے بعد فاروق ستار کو نمبر ٹو پوزیشن پر اسی لیے رکھا ہوا تھا کہ وہ مہاجر نہیں تھے۔ اسی لیے الطاف حسین نے بھی فاروق ستار کے نام پر پارٹی کی رجسٹریشن کرا رکھی تھی کہ وہ مہاجر نہیں تھے۔ الطاف حسین کو پتہ تھا کہ ایک میمن کبھی بھی مہاجروں کا لیڈر نہیں بن سکتا۔ اس لیے ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ مہاجروں کا لیڈر ایک میمن بن گیا۔ لیکن اس وقت مہاجر مجبور تھے۔ ان کی بقا کا مسئلہ تھا۔ بقا خطرے میں تھی۔ ایک خوف تھا۔ بابر غوری جیسے اور حیدر رضوی جیسے کئی نام بھاگ رہے تھے۔کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوگا۔ ایک خطرہ تھا کہ ایم کیو ایم پر ہی پابندی نہ لگ جائے۔ سارے ہی نا اہل نہ ہو جائیں۔ مقدمات بن جائیں گے۔ سب اندر ہو جائیں گے۔ کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہو گا۔ اس لیے فاروق ستار کو لیڈر مان لیا گیا۔ کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے بات کر ہے ہیں۔وہ ملک کی بڑی سیاسی قیادت سے بات کر لیں گے۔ راستہ نکال دیں گے۔کشتی کو بحران سے نکال دیں گے۔

لیکن اب وقت گزر گیا۔ بحران ٹل گیا۔ اب بقا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کشتی بچ گئی ہے۔ اب انھیں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ اب ان کی چھٹی کا وقت آگیا ہے۔ فاروق ستار کے خلاف یہ عدم اعتماد کوئی بے وجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک سوچ نظر آرہی ہے۔ ورنہ یہ سب بیچارے فاروق ستار کے خلاف کیوں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ کامران ٹیسوری کوئی اتنی بڑی وجہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم میں پاکستان میں پیسے بنانے کا کلچر کوئی نیا نہیں ہے۔ فاروق ستار کچھ ایسا نہیں کر رہے تھے جس کی ایم کیو ایم میں گنجائش نہیں تھی۔ پیسہ بنانا تو سیاست کا خاص کلچر ہے۔ مڈل کلاس کی لیڈر شپ ایم کیو ایم سے اوپر آئی اور امیر بھی ہوئی۔ ایسے میں فاروق ستار کو کامران ٹیسوری کے ایشو پر سزا دینا نا قابل فہم ہے۔ جو آج فاروق ستار پر الزام لگا رہے کیا وہ دودھ کے دھلے ہیں، نہیں ایسا نہیں ہے۔ سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فاروق ستار کی غلطیاں اپنی جگہ۔ کامران ٹیسوری سے محبت اپنی جگہ۔ لیکن فاروق ستارکے خلاف اتنی منظم بغاوت میں ایم کیو ایم لندن کا اشارہ بھی شامل ہے۔ لندن سے بھی فارو ق ستار کو مائنس کرنے کا اشارہ موجود تھا۔ الطاف حسین کی فاروق ستار سے نارضی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لیے اس فیکٹر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بہادرآباد کے لیے مشکلات کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایساہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ شائد اسی لیے مصطفیٰ کمال بھی فاروق ستار کے لیے نرم گوشہ رکھ رہے ہیں کیونکہ شائد وہ جانتے ہیں کہ فاروق ستار کے خلاف بغاوت میں لندن کا بھی ہاتھ ہے۔

ایم کیو ایم کی کیا بات کریں۔ آپ تحریک انصاف کی سینیٹ کی ٹکٹیں دیکھ لیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے ایوب آفریدی اور دیگر متنازعہ ٹکٹوں پر سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا، ان لوگوں نے دھرنے کے دنوں میں پارٹی کی فنڈنگ کی تھی، انھوں نے دھرنے پر پیسہ خرچہ کیا تھا۔ اس لیے ان کو ٹکٹ دیے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی ایسے کارکن کو بھی ٹکٹ دیا گیا کہ جس نے دھرنے میں بہت کام کیا تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، کیا کسی ایسے کارکن کے گھر والوں کو ٹکٹ دیا گیاجس نے دھرنے میں جان دی ہو۔ نہ جان کی قیمت۔ نہ وقت کی قیمت۔ بس مال کی قیمت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود عمران خان اقرار کرتے ہیں کہ اعظم سواتی کے ٹکٹ کا بھی ایک ہی میرٹ ہے کہ وہ پارٹی پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ ہر ضمنی انتخاب، ہر جلسہ اورہر ایونٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا ٹکٹ نہیں روکا جا سکتا۔ سیاسی جماعتوں میں پیسے والوں کا راج نیا نہیں ہے۔ ہر طرف ایک ہی صورتحال ہے۔ دینی جماعتوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ عزیزداری اور پیسے نے ساری سیاست کو ہی گنداکر دیا ہے۔

بہر حال ہم ایم کیو ایم کی بات کر رہے تھے۔ ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ اب جب پی آئی بی اور بہادر آباد کے نام سے دو دھڑنے بن گئے ہیں۔ تو زیادہ طاقتور کون ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کا سنجیدہ اور پڑھالکھا طبقہ شائد فارق ستار کے ساتھ چلا جائے۔ لیکن متحرک اور جوشیلا مہاجر کارکن فاروق ستار کے ساتھ نہیں جائے گا۔ وہ عامر خان کے ساتھ جائے گا۔ وہ فاروق ستار کی نرم سیاست سے پہلے ہی تنگ تھا۔

وہ مہاجر ہے اور مہاجر کے ساتھ جائے گا۔ کم پڑھا لکھا۔ اور جوشیلا کارکن بہادر آباد کے ساتھ جائے گا۔کیا مصطفیٰ کمال کو کوئی فائدہ ہو گا۔ ایک محتاط اندازہ تو یہی ہے کہ دونوں دھڑوں کی لڑائی سے بیزار اور ناراض کارکن مصطفیٰ کمال کے پا س چلا جائے گا۔ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو گا ۔کتنا یہ وقت ہی بتائے گا۔ وہ اس بحرانی کیفیت سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہے۔ ویسے تو یہ خیال ہے کہ فاروق ستار ایک نرم گو آدمی ہیں۔ وہ لڑنے والے نہیں ہیں۔ لیکن بہادر آباد اور پی آئی بی میں اب بقا کی جنگ ہے۔ یہ جنگ کراچی کے گلی محلوں میں پہنچ سکتی ہے۔ تقسیم بھی گلی گلی میں ہو گئی ہے۔ اس لیے حالات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جو بھی یہ جنگ ہار گیا اس کی مکمل چھٹی ہو جائے گی۔ بہادر آباد والوں کو بھی علم ہے کہ اگر پارٹی پر ان کی گر فت کمزور ہو گئی توان کی چھٹی۔ دوسری طرف فاروق ستار ی بھی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہو گئے تو ان کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے وہ ہر سطح تک جائیں گے۔

بہر حال میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے انجام کی طرف گامزن ہے۔ یہ انجام ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسے ہی اپنے انجام کی طرف جاتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت نہ راتوں رات بنتی ہے اور نہ ہی راتوں رات ختم ہوتی ہے۔ بننے کا عمل بھی بتدریج ہوتا ہے، ختم ہونے کا عمل بھی بتدریج ہوتا ہے۔ اب ختم ہونے کا عمل شروع ہے۔ ایم کیو ایم بحثیت جماعت تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔اس کے ووٹر کو بھی یہ بات سمجھ آرہی ہے۔ ووٹر سب کچھ دیکھ رہاہے۔ وہ متنفر ہو رہا ہے۔ اس کا ذہن بدل رہا ہے۔ اب وہ کدھر جائے گا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہو سکتا ہے وہ نہ فاورق ستار کے پاس آئے نہ عامر خان کے پاس آئے اور نہ مصطفیٰ کمال کے پاس آئے۔ وہ سب کو مسترد کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ کے لیے کسی ایک کی لاٹری نکل آئے۔

مقبول خبریں