فالج کے مریضوں کو جلد صحتیاب کرنے والا سینسر

ویب ڈیسک  جمعرات 15 مارچ 2018
امریکی سائنس دانوں کی ایجاد سے فالج کے مریضوں کےعلاج میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ فوٹو : فائل

امریکی سائنس دانوں کی ایجاد سے فالج کے مریضوں کےعلاج میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ فوٹو : فائل

 واشنگٹن: امریکی سائنسدان فالج کے حملے سے ناکارہ ہو جانے والے اعضا کی فوری بحالی کےلیے مخصوص سینسرز تیار کررہے ہیں جن کی مدد سے فالج زدہ شخص کے مفلوج ہوجانے والے پٹھوں (مسلز) کے گروپ کا پتا لگایا جا سکتا ہے جنہیں دوبارہ متحرک کرنے سے جسم کے ناکارہ اعضا کا دماغ سے رابطہ بحال ہوجائے گا اور یوں جسم کا وہ حصہ کام کرنے لگے گا۔

بتاتے چلیں کہ ہمارا دماغ ایک بڑی شریان سے خون حاصل کرتا ہے جبکہ مغز کے اندر بھی باریک شریانوں کا جال بچھا ہوتا ہے۔ ان شریانوں میں خون کے لوتھڑے بننے (کلاٹنگ) کی وجہ سے دماغ کو خون کی سپلائی رک جاتی ہے لہذا بند ہونے والی شریان دماغ کے جس حصے کو خون مہیا کرتی ہے وہ حصہ مفلوج ہوجاتا ہے جبکہ دماغ کا مفلوج ہونے والا حصہ جسم کے جن اعضا کو کنٹرول کرتا ہے، وہ بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے فالج کو Ischaemic Stroke کہا جاتا ہے۔

دوسری صورت میں بلند فشار خون یا دیگر وجوہ کی بناء پر دماغ کے اندر موجود خون کی باریک رگیں پھٹ جاتی  ہیں جن سے خون بہہ کر دماغ کے کسی حصے میں جم جاتا ہے اور دماغ کے اُس حصے سے کنٹرول ہونے والے جسمانی اعضاء مفلوج ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل کسی بڑی شریان کے پھٹنے سے ہو تو اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے فالج کو ’’جریانی فالج‘‘ (Haemorrhagic Stroke) کہا جاتا ہے۔

عموماً ہلکے درجے کے فالج کے دورے سے چہرے کا ایک حصہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے، دانت بھینچ جاتے ہیں، پلکوں کی حرکت ساکت ہوجاتی ہے اور مریض کو بولنے اور غذا نگلنے میں مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ اس قسم کے فالج کو ’’مقامی لقوہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے  اور اس کے علاج کےلیے دیسی ٹوٹکوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ طب میں اسے چہرے کا فالج (facial palsy)  کہا جاتا ہے جس میں فالج کے اثرات کو ایک صبر طلب علاج کے ذریعے بحال کیا جاتا ہے۔

فالج کا حملہ اگر سنگین نوعیت کا ہو تو بایاں یا دایاں دھڑ مفلوج ہو جاتا ہے اور ہاتھ پیر حرکت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے چلنے پھرنے اور معمول کا کام کاج کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مفلوج اعضا کو دواؤں اور فزیوتھراپی کے ذریعے بحال کیا جاتا ہے لیکن یہ صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جس میں اعضا کے معمول کے مطابق دوبارہ کام کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔

ان کیفیات کا ازالہ کرنے کےلیے امریکی سائنس دان، سینسرز کی مدد سے ایسا نظام ترتیب دے رہے ہیں جس کے ذریعے مریض کی حرکات اور سکنات سے اُن کے معالج براہ راست واقف رہیں گے اور مریض کی بحالی کےلیے کیے جانے والے اقدامات کے نتائج کا باریک بینی سے جائزہ بھی لے سکیں گے جبکہ ان سینسرز کی مدد سے مریض اپنے ڈاکٹرز سے فوری رابطہ بھی کرسکتے ہیں معالج و مریض میں دو طرفہ مربوط رابطے اور سینسرز کی بدولت ناکارہ  ہو جانے والے پٹھوں کے گروپ کا پتا لگانے سے مفلوج اعضا کی بحالی کے عمل کو تیز تر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

امریکی سائنس دانوں نے اپنی اس تحقیق کی تفصیلات حال ہی میں ٹیکساس میں منعقدہ، امریکی تنظیم برائے جدید سائنسی اختراعات کے سالانہ اجلاس میں پیش کیں امریکی سائنس دانوں کی یہ نئی ایجاد دراصل جلد پر چپکنے والے چھوٹے پلاسٹر پیپرز ہیں جن میں موجود سینسرز  جسم کے مفلوج اعضا کے ناکارہ ٹشوز کو ڈھونڈنے میں معالج کی مدد کرتے ہیں اور ایک مرتبہ جب ناکارہ ٹشوز کے گروپ کا پتا چل جائے تو اس کے علاج میں آسانی رہتی ہے؛ اور ناکارہ ٹشوز کے اس گروپ کو بحال کرلینے کےلیے خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ورزش، دواؤں اور معمولی احتیاطی تدابیر کے ساتھ  ناکارہ ہوجانے والے اعضا کو بحال کردیا جاتا ہے۔

یہ سینسرز ناکارہ ٹشوز کے گروپ کا پتا لگانے کے علاوہ مریض کی حرکات و سکنات سے بھی معالج کو آگاہ رکھتے ہیں۔ تھراپسٹ کی جانب سے بتائی گئی کسرت اور معمولات کی تفصیلات بھی ان سینسرز میں محفوظ ہوتی ہیں اور جیسے ہی مریض ورزش اور دیگر اہداف پورے کرلیتا ہے، معالج کو اس کی اطلاع مل جاتی ہے۔ اس طرح مریض کی جانب سے علاج میں کوتاہی برتنے اور ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں جو فالج کے مریضوں کےعلاج کےلیے بہت ضروری ہے۔

سائنس دانوں کےلیے اتنی ساری معلومات کو برقی آلات میں جمع کرنا اور پھر انہیں مریض کےلیے آسانی سے پہننے کے قابل بنانا ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ مریض کےلیے ایسی کسی بھی ڈیوائس کا پہنے رکھنا جو مکینیکل توانائی سے چلتی ہو، تکلیف کا سبب بن سکتا تھا اور جو فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بھی ہوسکتا تھا۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی شگاگو کے پروفیسر جون راجر کہتے ہیں کہ ایک عام کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے مائیکروپروسیسر کو انتہائی چھوٹی جگہ میں نصب کرنا اور پھر اسے وائی فائی اور پاور سپلائی سے منسلک کرنا ایک ایسا کام تھا جسے کرنا تقریباً ناممکن تھا لیکن مسلسل محنت اور لگن نے اس ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ اس اختراع کی مزید تفصیلات اس سال کے آخر تک سامنے آجائیں گی۔

امریکی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ سینسرز دیکھنے میں بہت چھوٹے لیکن ان کا کام بہت زبردست ہوگا جو آئندہ برسوں میں فالج کے مریضوں کے علاج میں انقلاب ثابت ہوگا جس کی مدد سے جسم کے مفلوج اعضا کی بحالی کا عمل تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچ سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔