عالمی یوم القدس اور حق واپسئ فلسطین

صابر ابو مریم  جمعـء 8 جون 2018
عالمی یوم القدس منانے کا مقصد دنیا بھر میں فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی اور غاصب اسرائیل کے مظالم کو اجاگر کرنا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عالمی یوم القدس منانے کا مقصد دنیا بھر میں فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی اور غاصب اسرائیل کے مظالم کو اجاگر کرنا ہے۔ (فوٹو: فائل)

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے اور دنیا بھر میں مسلمانان عالم اس بابرکت مہینے سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ اس مہینے کے ایام جہاں کئی ایک مناسبتیں لیے ہمارے درمیان آتے ہیں، ان میں ایک اہم ترین مناسبت جمعۃ الوداع کی ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان انتہائی جوش و جذبہ اور عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہوئے رمضان المبارک کی برکتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ ایک طرف جمعۃ الوداع کی مذہبی اہمیت ہے تو دوسری طرف اسی دن کو دنیا کے مظلوموں کی داد رسی کا دن قرار دیا گیا ہے اور ستر سال سے مظلومیت کی چکی میں پسنے والی فلسطینی مظلوم قوم کے حق میں اور بالخصوص سرزمین انبیاء علیہم السلام پر قائم مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی غاصب صہیونی ریاست کے تسلط کی آزادی و حمایت کا دن قرار دیا گیا ہے اور اس دن کو دنیا بھر میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقوام بھی ’’عالمی یوم القدس‘‘ کے عنوان سے مناتے ہیں۔

جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کا عنوان اس صدی کے اور اسلامی دنیا کے عظیم رہنما جناب حضرت آیت اللہ امام خمینیؒ نے دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو سب سے پہلے امام خمینی نے ایران میں قائم اسرائیلی سفارتخانے کو فی الفور ختم کرنے کا عمل انجام دیا اور اس کے ساتھ ہی اس جگہ کو فلسطینی سفارتخانہ کا مقام قرار دے کر فلسطینی پرچم لہرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ انقلاب کی تحریک کے طویل ایام میں بھی امام خمینی نے کبھی بھی فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کو پس پشت نہیں ڈالا تھا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد جہاں فلسطینی سفارتخانہ قائم کیا وہاں ساتھ ہی ساتھ رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو ’’عالمی یوم القدس‘‘ کا عنوان دے کر مسلمانوں کےلیے اس دن کو اس عنوان سے منانے کےلیے مذہبی و اخلاقی و شرعی حیثیت کا حامل قرار دیا۔

اس دن کی اہمیت کی مناسبت سے امام خمینی نے ایرانی قوم سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے فتاویٰ جاری کیے اور کہا کہ جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ اور یوم اسلام ہے جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار (امریکہ، برطانیہ، اسرائیل) کی خدمت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر مقامات پر امام خمینی کے فرامین و فتاوی میں اس دن کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع، یوم القدس حق اور باطل کے درمیان علیحدگی کا دن ہے۔ مزید فرامین میں اس طرح ملتا ہے کہ یوم القدس دنیا بھر کے مظلوموں کی ظالموں کے مقابلے میں فتح کا دن ہے، یوم القدس اسلام کی بقاء و حیات کا دن ہے، یوم القدس استعماری قوتوں کے خاتمے اور فنا کا دن ہے۔ اسی طرح کے متعدد فرامین کے ساتھ ساتھ یوم القدس اور مسئلہ فلسطین کےلیے مسلمان حکمرانوں کے کردار پر امام خمینی نے بہت زیادہ اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

بہرحال آج سے چالیس سال قبل فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور قبلہ اول کی بازیابی کےلیے مقرر کیا جانے والا یوم القدس آج بھی پوری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا کی تمام اقوام کی جانب سے بالخصوص ملت فلسطین کی جانب سے انتہائی جوش و جذبہ اور عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یوم القدس کی اہمیت اور اس کے اثرات اب معاشروں پر واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم حالیہ دنوں میں فلسطین میں ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سازشوں کے تناظر میں بیان کرتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ فلسطین کے عوام کو جہاں یوم القدس کے قیام سے تقویت حاصل ہوئی ہے اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر غاصب صہیونی ریاست اپنے ظلم و ستم سے فلسطینیوں کا سال بھر محاصرہ بھی کیے رکھے تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یوم القدس کی وجہ سے نہ صرف فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بلکہ دنیا بھرمیں فلسطینیوں کے حقوق اجاگر ہونے اور ان کی بین الاقوامی حمایت کے عنوان سے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں جس طرح عالمی سامراجی قوتوں کی کوشش ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کو غاصب صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی گود میں ڈال دیا جائے تو اس عنوان سے انہوں نے جہاں ایک طرف عرب حکمرانوں کو اپنا ماتحت کر لیا ہے وہاں ساتھ ساتھ القدس شہر میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ القدس فلسطین کا نہیں، لیکن یقینی طور پر سامراجی قوتیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ یہ فلسطین کے مظلوم اور دلیر عوام ہیں جو نہتے ہونے کے باوجود گزشتہ نو ہفتوں سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج جو فلسطینیوں کے یوم الارض سے شروع ہو کر یوم نکبہ تک آن پہنچا تھا، اب یہ احتجاج یوم القدس کے دن تک اور شاید اس کے بعد بھی جاری رہنے والا ہے۔

فلسطینیوں نے جمعۃ الوداع، یوم القدس کو جہاں ایک طرف القدس میں نماز ادا کرنے کے نعروں کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے وہاں فلسطینیوں کا نعرہ ہے کہ یوم القدس فلسطینیوں کے حق واپسی کا دن ہے۔ یعنی ساٹھ لاکھ فلسطینی کہ جنہیں امریکی سرپرستی میں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل نے فلسطین سے بے دخل کیا تھا، سب کے سب اپنے وطن واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور فلسطین کی مقبوضہ سرحدوں پر جمع ہیں۔ اور یہی وہ نقطہ انقلاب ہے کہ جہاں سے فلسطین کی باقاعدہ صہیونی دشمن کے چنگل سے آزادی کا راستہ نکل رہا ہے یعنی فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔

فلسطینی عوام کے حق واپسی کے عنوان سے اس برس جمعۃ الوداع کو آنے والا یوم القدس فلسطینیوں کے حق واپسی کا سورج لے کر طلوع ہورہا ہے اور یہ ایسا سورج ہے کہ جس کی کرنیں گزشتہ چالیس برس سے پھوٹ رہی ہیں اور اب یہ نمودار ہونے کو ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت یوم القدس اور فلسطینیوں کے حق واپسی کی بات کی جارہی ہے جسے انسانیت کی دشمن قوتیں بالخصوص امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل چاہتے ہوئے بھی نہیں روک پائیں گے۔ ان شاء اللہ عن قریب مسلمانوں کی جمعیت القدس میں نماز ادا کرے گی اور غاصب و جعلی ریاست صہیونی اسرائیل کا خاتمہ ہوگا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فلسطین کے عوام اپنے حقوق اور دفاع کی خاطر نہتے ہی میدان میں نکل آئے ہیں اور استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ پس اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر مسلمان ممالک کی حکومتیں امریکی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں تو رہیں لیکن عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کےلیے سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھیں۔ ذرائع ابلاغ سمیت سوشل میڈیا اور دیگر مواقع پر فلسطین کے مظلومین کی حمایت کے کسی موقع کو خالی نہ جانے دیں اور اس برس کے یوم القدس کو شایان شان منا کر ثابت کردیں کہ اسرائیل ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے جبکہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔

دنیا کو جتا دیں کہ یوم القدس، فلسطینیوں کی واپسی کا دن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔