بڑے جلسے اور کارنر میٹنگز

ہماری سیاست کا عالم یہ ہے کہ جو جتنا بڑا جلسہ کرے وہ اتنا بڑا لیڈر کہلاتا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari June 22, 2018
[email protected]

ہمارے سورما سیاسی رہنما آج کل جلسوں کی سیاست میں مصروف ہیں، ہر سورما کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے جلسے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لائے اور یہ دعویٰ کرے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ جلسوں میں عوام کو لانا ایک مشکل کام ہے، ذاتی اثر و رسوخ اور پیسہ پانی کی طرح بہاکر سیاسی سورما مشکل سے لاکھ سوا لاکھ لوگوں کو جمع کر لیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھ سوا لاکھ کے جلسے بھی نہیں ہوتے، نہ ان ملکوں کے رہنما جلسوں کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سارے ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔

ان ملکوں میں کارنر میٹنگیں کی جاتی ہیں اور ان میٹنگز میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور پریس کانفرنسوں، استقبالیوں وغیرہ کے ذریعے بھی اپنی پارٹی کا منشور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام کو بتاتے ہیں کہ اگر وہ برسر اقتدار آئے تو وہ کون سے مسائل کو ترجیح دیں گے اور انھیں کس طرح حل کریں گے۔

ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کا اصل مسئلہ عوام تک اپنا منشور پہنچانا ہوتا ہے، اس کے لیے لاکھوں لوگوں کو جمع کرنا ضروری نہیں ہوتا، کیونکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کی ایک ایک بات عوام تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ہمارے سیاسی رہنماؤں کا اصل مسئلہ زیادہ سے زیادہ عوام کو جمع کرنا اور یہ دعویٰ کرنا ہے کہ ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں، جلسوں میں اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں اور جھوٹے وعدے کرنے کے علاوہ نہ عوامی مفاد کی کوئی بات ہوتی ہے، نہ قابل عمل وعدے کیے جاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی رہنما یا امیدوار ٹارزن کی طرح آسمان سے عوام کے سروں پر نہیں کودتا بلکہ اسے خدمت کے عملی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس پریکٹیکل کے لیے انھوں نے بلدیاتی ادارے بنا رکھے ہیں، ان اداروں میں عوام کے علاقائی مسائل حل کیے جاتے ہیں اور ان خدمات کے لیے امیدواروں کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے کر عوام کی حمایت حاصل کرنا پڑتی ہے اور ان ملکوں میں للو پنجو صوبائی یا قومی اسمبلیوں کے امیدوار نہیں ہو سکتے، کیونکہ انھیں انتظامیہ کی تحقیقی چھلنی سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ وہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی امیدوار انتخابات جیت کر عوام کی نظروں سے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جائے، کامیاب امیدوار عوام میں رہتا ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، عوام بھی اس کی کارکردگی پر سخت نظر رکھتے ہیں۔

ہماری سیاست کا عالم یہ ہے کہ جو جتنا بڑا جلسہ کرے وہ اتنا بڑا لیڈر کہلاتا ہے اور ہمارے ملک کے قانون ساز اداروں میں جانے کے لیے نہ کسی اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اہلیت جانچی جاتی ہے، یہی ستم ظریفی نہیں بلکہ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہ صد مشکل جمہوری دور میں پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں لیکن بلدیاتی اداروں کو نہ انتظامی اختیارات حاصل ہیں نہ مالی اختیارات حاصل ہیں، بلدیاتی رہنما ٹن ٹن گوپال بنے ہوئے ہیں اور سارا شہر کچرا خانہ بنا ہوا ہے۔

ہمارے ملک میں یہ سیاسی کلچر کیوں پروان چڑھا ہے اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس کلچر کے پروان چڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام ترقی یافتہ ملکوں کے سیاسی کلچر سے واقف ہی نہیں، انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ جمہوری ملکوں میں منتخب نمایندوں کو بے لگام نہیں چھوڑا جاتا اور منتخب نمایندے انتخابات جیتنے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح عوام کے درمیان سے غائب نہیں ہو جاتے، ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں منتخب نمایندوں کو عوام کے درمیان رہنا پڑتا ہے اور اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق عوام کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں، کیونکہ دوسری صورت میں عوام کے سامنے جوابدہی کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی مرکزی قیادت منتخب نمایندوں کو اپنے منشور کے مطابق صرف منشور پر عملدرآمد کا ٹاسک ہی نہیں دیتی بلکہ کام منشور کے مطابق ہو رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی بھی کرتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح سیاست اور اقتدار پر عوام کی بالادستی قائم نہیں ہوئی بلکہ عوام کو بھیڑ بکری بنا کر رکھا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ جاگیردار اور وڈیرے اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد جاگیردار وڈیرے اور ان کے طبقاتی بھائی مکمل طور پر بے لگام ہو جاتے تھے کوئی ان سے پوچھنے والا ہوتا نہ وہ کسی کو جواب دہ ہوتے۔ ہماری آبادی کا کوئی 60 فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے اور دیہی علاقے مکمل طور پر وڈیروں کے زیر تسلط تھے۔

اس قسم کے وڈیرہ شاہی کلچر سے بچنے کے لیے نوآزاد ملکوں نے آزادی حاصل کرتے ہی جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام سیاست میں حصہ لینے لگے اور پاکستان کی طرح عوام کی حیثیت ہاری کسانوں صنعتی اور زرعی غلاموں کی نہیں رہی۔ ہمارے ملک میں ابھی تک جاگیرداری موجود ہے اور آج بھی سیاسی وڈیرے لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور فخر سے اپنی زمینوں کی لمبائی چوڑائی کا ذکر قانون ساز اداروں میں بھی کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک قانون ساز اداروں اور کابیناؤں میں براجمان ہیں اور زرعی اصلاحات کے مسئلے کو قانون ساز اداروں میں اٹھنے ہی نہیں دیتے۔

جمہوری سیاست میں عام طور پر عوام سے رابطہ کارنر میٹنگز کے ذریعے ہوتا ہے ہماری وڈیرہ شاہی سیاست میں کارنرمیٹنگز کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی بلکہ لیڈر حضرات بھاری سرمایہ خرچ کر کے عوام کو جلسوں میں جمع کر کے عوام سے جھوٹے اور پر فریب وعدے کرتے ہیں اور زندہ باد کے نعروں کے ساتھ اس برانڈ جمہوریت کی ذمے داری ختم ہو جاتی ہے اس غیر جمہوری کلچر سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے ملک میں سخت زرعی اصلاحات کر کے دیہی علاقوں میں رہنے والی 60 فیصد آبادی کو آزاد کرایا جائے اور شہری علاقوں میں پھیلی ہوئی شخصیت اور خاندان پرستی کی جاگیردارانہ بیماری کو ختم کیا جانا چاہیے اور کارنر میٹنگز میں سوال جواب کے سیشن ہونے چاہئیں۔

مقبول خبریں