بلوچستان دہشتگردی کے نشانے پر

دہشتگرد اس خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوں کہ پاکستان میں انتخابی عمل ڈی ریل ہوگا۔


Editorial July 26, 2018
دہشتگرد اس خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوں کہ پاکستان میں انتخابی عمل ڈی ریل ہوگا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

دہشتگردوں نے ایک بار بلوچستان کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنالیا اور بدھ کو کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس کے قریب پولیس وین کو خود کش حملہ سے اڑالیا جس کے نتیجے میں31 پولیس اہلکارسمیت دیگر افراد جاںبحق جب کہ موقع پر موجود 30 زخمی ہوئے جس میں بعض کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔

ڈی آئی جی بلوچستان عبدالرزاق چیمہ کے مطابق خود کش حملہ پولیس موبائل پر ہوا ، بم ڈسپوزل اسکواڈ حکام نے تفتیش کے دوران بعض شواہد جمع کرلیے ۔ ملک کے سیکیورٹی حلقے دہشتگردی کے وسیع تر تناظر میں بلوچستان کو ٹارگٹ پر لینے کی وجوہ اور اس کے اسٹرٹجیکل وٹیکٹیکل عوامل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، انتہاپسندوں نے جس شدت کے ساتھ بلوچستان اور کوئٹہ کو ہدف پر لیا ہے یہ بات بلاشہ سیکیورٹی حکام کے لیے وجہ تشویش بنی ہوئی ہے اور ضرورت فوری موثر دہشتگردی مخالف حکمت عملی کی ہے جو دہشتگردوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ صرف روکے بلکہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور سیکیورٹی حکام داخلی صورتحال ، بلوچستان سمیت فاٹا اور شمالی وزیرستان میں تشدد اور فائرنگ کے واقعات میں ہلاکتوں کے اسباب وعلل کا جائزہ لیں اور نادیدہ غیر ملکی عناصر اور سامراجی قوتوں کے ان واقعات میں ملوث ہونے کے بارے میں اس پہلو سے بھی ٹھوس تحقیقات ہونی چاہیے کہ دہشتگردوں اور طالبان کے بلوچستان اور فاٹا کے علاقے میں قدم اکھڑنے کے باوجود موت کے یہ سوداگر عین الیکشن کے دنوں میں جمہوریت ، ملکی سالمیت اور قومی وحدت و یکجہتی پر کیوں کر حملہ کرنے میں یکے بعد دیگرے کامیاب ہوئے، سیکیورٹی نقطہ نظر سے کوئٹہ کا سانحہ کسی طور بھی روایتی اجلاس کی نذر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس بہیمانہ حملہ کو جو مستونگ حملہ کا وحشیانہ ری پلے ہے حقیقی ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے۔

دہشتگرد اس خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوں کہ پاکستان میں انتخابی عمل ڈی ریل ہوگا اور قوم کے حوصلے ان بزدلانہ حملوں سے پست کیے جا سکیں گے، قوم پر عزم اور سیکیورٹی فورسز غیر متزلزل یقین کے ساتھ طالبان، داعش، القاعدہ اور غیر ملکی طاقتوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اتنی ہی شدت کے ساتھ دہشتگردوں پر ٹوٹ پڑیں جس گھناؤنے انداز میں وہ سیاسی شخصیات، کارکنوں' معصوم شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کے مرتکب ہوئے ہیں،لازم ہے کہ دہشتگردی کا سر کچلنا وقت کا تقاضہ ہے، صرف مذمتی بیانات کا وقت گزر گیا اب تو دہشت گردی کے خلاف آل آؤٹ وار ناگزیر ہے ۔

عالمی قوتوں نے ڈبل گیم کھیلا ہے اور پاکستان کی قربانیوں کی ستائش سے بھی گریز کیا ہے جب کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف خطے میں جنگ کے ضمن میں اب تک بے شمار معاشی و جانی نقصانات برداشت کیے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا اور بلوچستان کو ٹارگٹ کرنے کے مقاصد ملکی سلامتی کے خلاف دشمن کی بد طینتی اور شیطانی فطرت کی کارفرمائی ہے۔ پاکستان مخالف عناصر اور گریٹ گیم کی نئی استعماری پیش قدمی کا ادراک ضروری ہے۔

دہشتگردی ملک میں عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرنے کا ایک مربوط پلان ہے اسے بروقت ناکام بناکر ملک کو غیر ملکی سازشوں سے محفوظ کرنے کی سمت ٹھوس سیکیورٹی پلاننگ نظر آنی چاہیے، قوم ہم وطنوں کی دہشتگردوں کے ہاتھوں لاشیں دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی اب وہ پہلے سے زیادہ منظم ، بروقت جارحانہ حملوں کے نتیجے میں گھس بیٹھئے دہشتگردوں کوخاک و خون میں غلطاں دیکھنے کی آزومند ہے۔ لہذا اب دہشتگردوں اور ان کے ملکی اور غیر ملکی ماسٹر مائنڈز کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔یہ بہر کیف ایک تلخ حقیقت ہے کہ نائن الیون فال آؤٹ اور ملکی داخلی صورتحال سے منسلک الم ناک سیاسی واقعات کے باعث بلوچستان کو وفاقی مین اسٹریم سرگرمیوں سے لاتعلق رکھے جانے پر میڈیا نے کافی سوال اٹھائے تھے۔

ابھی حال ہی میں ایک معاصر انگریزی اخبار نے تقابلی جائزہ بھی پیش کیا تھا کہ حالیہ انتخابی مہم اور سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد اور رابطوں میں مائنس بلوچستان ذہنی رویہ نمایاں تھا، بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں نے بھی ان خدشات کا حوالہ دیا کہ الیکشن مہم میں بلوچستان اور اس کے معاملات میڈیا کی نظروں سے عموماً اوجھل رہے ، جب کہ مستونگ سانحے پر مین اسٹریم میڈیا کے تجاہل عارفانہ کو قومی سیاست کے سنجیدہ حلقے میں افسوس ناک قراردیا گیا۔ شاید یہی وہ نظریاتی ، سیاسی اور انتخابی مہم میں مضمر خلا تھا کہ دہشتگرد پلٹ کر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلنے پر مائل ہوئے اور پشاور، بنوں ، مستونگ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بم دھماکوں اور خود کش بمباروں سے حملے کرائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں دہشتگردوں کی کارروائیوں اور تھریٹ الرٹ کے حوالے سے سیکیورٹی اور ہائی الرٹ انٹیلی جنس شیئرنگ نتیجہ خیز ہو، میڈیا مسلسل اس بات کو رپورٹ کرتا رہا کہ الیکشن کی تاریخ کے قریب آتے ہی دہشتگردوں کے قافلوں کا رخ پاکستان کے ان دو حساس صوبوں کی طرف ہوجانا خالی از علت نہ تھا، ان اطلاعات کے سیاق وسباق میں اسی وقت ہائی الرٹ کی ضرورت پر زور بھی دیا گیا اور تھریٹ الرٹ پر مستعدی اور اس پر فوری عملدرآمد کے لیے تمام سیکیورٹی اداروں کے مابین رابطہ مزید بہتر بنانے کی یقین دہانی بھی ناگزیر تھی ۔بہرحال اب بھی وقت ہاتھ سے نہیںنکلا۔دہشتگردوں کا تعاقب جنگی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔

مقبول خبریں