- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی قدرتی معدن تجربہ گاہ میں تیار
ٹورنٹو، کینیڈا: کینیڈین اور برطانوی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ براہِ راست جذب کرنے والی ایک قدرتی معدن تجربہ گاہ میں تیار کرنے کا ایک تیز رفتار طریقہ وضع کیا ہے جو مستقبل میں فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے کا ایک موزوں طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اس معدن کا نام ’میگنیسائٹ‘ (Magnesite) ہے جو میگنیشیم کاربونیٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ زیرِ زمین قدرتی ماحول میں یہ معدن (منرل) لاکھوں سال میں تشکیل پاتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کے ذخائر کا تخمینہ 6.5 ارب ٹن لگایا گیا ہے یعنی یہ دوسری معدنیات کے مقابلے میں خاصی کم پائی جاتی ہے۔
میگنیسائٹ کو عموماً تیل اور گیس کےکنووں میں ’کاربن ضبطگی‘ (کاربن کیپچر) یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے فضا کو گرمانے اور گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی مرکزی گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں شامل ہونے کا عمل خاصا کم ہوجاتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والے کئی منصوبوں اور پلانٹس پر دنیا بھر میں کام جاری ہے لیکن اس ضمن میں اب تک کوئی بڑی کامیابی ہمارے حصے میں نہیں آسکی ہے۔
گزشتہ دنوں بوسٹن، امریکا میں منعقدہ ’’گولڈشمٹ کانفرنس 2018‘‘ میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تحقیق کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے ٹرینٹ یونیورسٹی، کینیڈا کے پروفیسر ایان پاور نے نے بتایا کہ انہوں نے میگنیسائٹ تیار کرنے کے کم خرچ اور کامیاب تجربات عام درجہ حرارت پر انجام دیئے ہیں، جن میں یہ معدن صرف 72 دنوں میں حاصل کرلی گئی۔ البتہ، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ میگنیسائٹ تیار کرنے کا یہ طریقہ تجرباتی مرحلے پر ہے جسے صنعتی و تجارتی پیمانے تک پہنچانے میں مزید کئی سال کی محنت اور تحقیق درکار ہوگی اس لیے اس بارے میں فوری قیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تجربہ گاہ میں میگنیسائٹ تیار کرنے کےلیے اس ٹیم نے عام پلاسٹک ’’پولی اسٹائرین‘‘ کی خردبینی گولیوں (microspheres) کو بطور عمل انگیز استعمال کیا جس کی وجہ سے عام درجہ حرارت پر میگنیسائٹ بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور لاکھوں کروڑوں سال کے بجائے صرف 72 دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ عمل پورا ہوجانے کے بعد پولی اسٹائرین کی خردبینی گولیاں بچ رہتی ہیں جنہیں بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ طریقہ کم خرچ بھی رہتا ہے۔
فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے ضمن میں میگنیسائٹ اس لیے اہم سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ معدن اپنے وزن کے مقابلے میں نصف کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرسکتی ہے۔ یعنی اگر میگنیسائٹ کا 2 کلوگرام وزنی ٹکڑا لیا جائے تو وہ فضا سے 1 کلوگرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرسکتا ہے۔ اگر یہ سفوف کی شکل میں ہو تو سطحی رقبہ (سرفیس ایریا) زیادہ ہونے کی بناء پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی رفتار خاصی بڑھائی جاسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔