- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- پاکستان اور آئرلینڈ کا دوسرا ٹی ٹوئنٹی بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
- وزیراعظم کا آزاد جموں و کشمیر کی صوتحال پر گہری تشویش کا اظہار
- جماعت اسلامی کا اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار
- بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکسز چھوٹ ختم کرنے کی تجویز
- پیچیدہ بیماری اور کلام پاک کی برکت
- آزاد کشمیر میں مظاہرین کا لانگ مارچ جاری، انٹرنیٹ سروس متاثر، رینجرز طلب
- آئرلینڈ سے شکست کو کوئی بھی قبول نہیں کر رہا، چئیرمین پی سی بی
- یونان میں پاکستانی نے ہم وطن کو معمولی جھگڑے پر قتل کردیا
- لکی مروت میں جاری آپریشن 36 گھنٹوں بعد مکمل، دو دہشت گرد ہلاک
- صدر آصف زرداری کا آزاد کشمیر کی صورتحال کا نوٹس، اہم اجلاس طلب
- ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹیں گے، وزیر خزانہ
- انڈونیشیا میں سیلاب اور لاوے میں بچوں سمیت 14 افراد بہہ گئے
سول اسپتال کا ٹراما سینٹر 6 سال بعد بھی مکمل فعال نہ ہوسکا
کراچی: سول اسپتال کراچی میں بے نظیر بھٹوایکسڈنٹ اینڈ ایمرجنسی ٹراما سینٹر 6 سال گزرنے کے باوجود بھی مکمل فعال نہیں کیا جا سکا جبکہ اندورن سندھ میں قائم کیے جانے والے 22 اضلاع کے ٹراما سینٹرزبھی غیر فعال ہیں۔
کراچی میں بینظیربھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ایمرجنسی ٹراما سینٹر9 سال گزرنے کے بعد بھی مکمل نہیںکیا جاسکا اس میگا منصوبے کی منظوری 2008میں ایکنک اجلاس میں دی گئی تھی اس وقت یہ منصوبہ سوا 2 ارب روپے کا تھا تاہم بعد میں تاخیر ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت 6 ارب تک جا پہنچی۔
اس میگا منصوبے کو تین سال میں مکمل کرنا تھا ، ٹراما سینٹرکی تعمیرات مکمل کرنے کے بعد ٹراما سینٹرکوسول اسپتال کے ماتحت کرنا تھا لیکن سابقہ پیپلزپارٹی حکومت نے میگا منصوبے کانظم ونسق اپنے ہی پاس رکھا ہوا ہے۔
ٹراما سینٹرکومحکمہ صحت نے پہلے ڈائویونیورسٹی کے ماتحت کرنے کا عندیہ دیا پھر سینٹرکو سول اسپتال کے ماتحت چلانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن سابقہ حکومت نے میگا منصوبے کا انتظام اپنے پاس رکھتے ہوئے مینجمنٹ بورڈکے ماتحت کردیا جس میں بورڈکے سربراہ ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی کومقررکیاگیا ہے۔
ان کی تقرری غیرقانونی بتائی گئی ہے کیونکہ پروفیسرسعید قریشی گذشتہ دنوں ڈاؤ یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر ریٹائرڈ ہوچکے ہیں لیکن انھیں 3سالہ کنٹریکٹ پر یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر رکھا ہے ان کے پاس 2 عہدے ہیں۔ جون 2016میں ادھورے ٹراما سینٹرکا افتتاح بے نظیر بھٹوکی سالگرہ کے موقع پر بلاول بھٹو نے کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا ہے کہ ٹراما سینٹر میں نصف انتظامی افسران سول اسپتال جبکہ نصف ریٹائرڈ افسران تعینات ہیں جنھیں بھارے معاوضے دیئے جارہے ہیں، ٹراما سینٹر سول اسپتال کے ماتحت ہے اور نہ ہی ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامی کے تحت کیا جاسکا، اسپتال کوخود مختار بناکرمینجمنٹ بورڈ کے ماتحت کررکھا ہے جس میں پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے اپنے ہی انتظامی افسران کو تعینات کردیا ہے۔
پروفیسر سعید قریشی سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے قریبی ذاتی دوست ہیں بیک وقت دونوں عہدے ان کے پاس ہیں ، قانونی اعتبار سے ان کی تعیناتی غیر قانونی ہے جبکہ پروفیسر سعید قریشی کوسابقہ حکومت نے محکمہ صحت ی سینٹرل پروکیورمنٹ کا بھی سربراہ بنارکھا ہے۔
واضح رہے کہ پروفیسر سعید قریشی کو سابق حکومت نے سول اسپتال کا 8سال تک سربراہ بھی مقرر کررکھا تھا جبکہ ان کی اصل تعیناتی ڈاؤ یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر تھی، ٹراما سینٹر میں سول اسپتال کے امراض چشم یونٹ، نیوروسری جری سمیت 5یونٹ منتقل کیے گئے ہیں جبکہ دیگر تمام یونٹ سول اسپتال میں کام کررہے ہیں، ٹراما سینٹر کی تعمیر کا مقصد یہ بھی تھا کہ سول اسپتال کے نصف یونٹوں کو ٹراما سینٹر میں منتقل کرنا تھا تاکہ سول اسپتال سے مریضوں کے دباؤ میں نمایاں کمی لائی جاسکے۔
ٹراما سینٹر میں سول اسپتال کی ایڈیشنل ایم ایس ڈاکٹر یاسمین کھرل جبکہ ڈپٹی ایم ایس ڈاکٹر عامر بھی انتظامی عہدوں پر تعینات ہیں، سینٹر میں نصف انتظامیہ سول اسپتال جبکہ دیگرریٹائرڈ افسران پر مشتمل ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کراچی کے سول اسپتال کے ٹراما سینٹر سمیت سندھ کے 22اضلاع میں ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو منصوبے کے تحت کاغذات میں اربوںکی مالیت سے تعمیرکیے جانے والے تمام ٹراما سینٹر غیر فعال پڑے ہیں جس کی وجہ سے اندرون سندھ کے غریب عوام علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔