امریکی اعتراف بعد از خرابیٔ بسیار

امریکا نے اس اعتراف میں دیر کر دی کہ مسئلہ کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں۔


Editorial November 11, 2018
امریکا نے اس اعتراف میں دیر کر دی کہ مسئلہ کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں۔ فوٹو: فائل

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ ہم دنیا سے متوازن تعلقات چاہتے ہیں، امریکا سے تعلقات اچھے نہیں ہیں، امریکا کو بتا دیا، افغانستان سے متعلق ساری توقعات پوری نہیں کر سکتے، آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آیا تو دنیا سے مثبت ردعمل آیا لیکن پھر معاملات دوسری طرف چلے گئے جس سے نقصان ہوا، جمعہ کو سینیٹ پالیسی ریسرچ فورم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت ہوا جس میں پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو زیر بحث لایا گیا۔ ادھر افغان عمل کے لیے ماسکو کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی۔

پاکستان کا افغان امن کے ضمن میں یہ موقف حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکا 18 سال سے وہاں موجود ہے، اب کہہ رہا ہے کہ مسئلے کا فوجی حل نہیں جب کہ پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکا تھا، تاہم پاکستان آج بھی افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے، عالمی تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ امریکی جنگجویانہ پالیسی، بے سمت ڈپلومیسی اور صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی پالیسی کے مضمرات دنیا اور برصغیر کے لیے سخت اندوہ ناک رہے ہیں، سابق صدر اوباما نے 2014ء میں کہا تھا کہ ہم ایک ایسے متحدہ افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے جو اپنے مستقبل کی خود ذمے داری سنبھال لے۔

افغانستان کو جنگ نے انتظامی، عسکری، اقتصادی اور تزویراتی طور پر قابل رحم حالت تک پہنچا دیا ہے، امریکا نے اس اعتراف میں دیر کر دی کہ مسئلہ کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں، مگر بات چیت کے لیے کبھی سازگار حالات اور خطے کے حقیقی شراکت داروں کو آن لائن نہیں لیا گیا، امریکا نے پاکستان کے کردار کو سائیڈ لائن کر کے بھارت کو کلیدی کردار دے کر افغانستان کو سرحد پار تخریب کاری، دہشتگردی اور مداخلت اور ٹارگٹ کلنگ کی چھوٹ دی، بھارت نے افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان کی خدمات اور امن عمل میں صائب کوششوں کو بے اثر کرنے میں مذاکرات سے گریز کیا۔ اس لیے جب تک پاکستان امریکا، کابل حکومت اور افغان طالبان ایک پیج پر نہیں ہونگے افغان امن مسئلہ پنگ پانگ ڈپلومیسی کا کھیل رہے گا۔

تاہم جمعہ کو افغانستان میں قیام امن کے لیے روس (ماسکو) میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی تجاویز کا خیرمقدم کیا گیا جب کہ امن کے لیے مفاہمتی پالیسی پر اتفاق کیا گیا ہے، اگر دیکھا جائے تو شرکائے کانفرنس کا انداز نظر کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی اس اہم تجویز کی حمایت تھی کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام افغان دھڑوں کو اختلافات ختم، مفاہمت کا آغاز کرنا ہو گا، ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے کہا ہے کہ افغان مسئلہ کا حل صرف سیاسی ہے، فوجی نہیں، فریقین کو لچک دکھانا ہو گی، ایڈیشنل سیکریٹری محمد اعجاز نے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن و استحکام ضروری اور پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہو، جس سے افغان تنازعے کے سیاسی حل کی امید پیدا ہوئی ہے۔ طالبان کے 5 رکنی وفد کے علاوہ اجلاس میں پاکستان، بھارت، چین، امریکا، قطر اور دوسرے ملکوں کے علاوہ کئی اہم افغان سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی، جن میں سے بعض کے اشرف غنی کی حکومت سے اختلافات چل رہے ہیں۔

امن کونسل کے ترجمان احسان طاہری نے کہا کہ ہم نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے موضوع پر بات کی اور ان سے کہا کہ اپنی مرضی سے جگہ اور وقت مقررکریں۔ روسی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ مسئلہ کا سیاسی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انھوں نے علاقائی شراکت داروں کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک اطلاع کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں چار ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ہیں، وہ افغانستان، پاکستان، امارات اور قطر کا دورہ کریں گے۔

بلاشبہ خطے میں ڈرامائی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ افغانستان سمیت مختلف عالمی مسائل اور سنگین چیلنجز کے تباہ کن سلسلے امریکی گن بوٹ ڈملومیسی اور بلاجواز ڈو مور کے عالمی بگل کی گھن گرج سے ملتے ہیں، نائن الیون نے بین المملکتی تعاون، خیر سگالی، اور سیاسی رواداری کا شیرازہ بیدردی سے بکھیر دیا، مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اسرائیل نے عرب اور مسلم دنیا کو نفسیاتی محکومی اور اب اس سے سفارتی تعلقات قائم رکھنے کی مہم شروع کی ہے۔

آج فلسطین، افغانستان، یمن، شام، لیبیا اور عراق کی دردانگیز صورتحال اور عوام کی بے بسی، قتل وغارت، بمباری اور وحشیانہ حملوں نے ہجرت، نقل مکانی اور پناہ گزینی کے دردناک حالات پیدا کیے ہیں، یمن میں بچوں کی اموات اور یورپ میں پناہ کی تلاش میں سمندر برد ہونے والے بدنصیب انسانوں کی داستانیں اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بیان کی ہیں، اس لیے انسانیت کے ناطے عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے اسلحہ کے بے ہنگم استعمال پر پابندی عائد کرے، مصالحت اور مفاہمت سمیت جنگ سے تباہ حال ملکوں میں تعمیر و بحالی اور انفراسٹرکچر، روزگار، رہائش اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے بین الاقوامی معاونت کا قابل عمل روڈ میپ تیار کرے۔ افغانستان میں امن عمل، پاکستان کے فعال کردار کی قبولیت، امریکی جنگ بندی اور افغان طالبان کی طرف سے لچک کے بغیر کابل حالت جنگ میں ہی رہے گا۔

 

مقبول خبریں