پاکستان پیپلزپارٹی کی اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل کی مخالفت

ویب ڈیسک  جمعرات 9 مئ 2019
حکومتی قرضوں میں 22 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، وزارت خزانہ ۔ فوٹو:فائل

حکومتی قرضوں میں 22 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا، وزارت خزانہ ۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی نے اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل کی مخالفت کردی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق فیض اللہ کاموکا کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا، وزارت خزانہ نے دس سال میں  لیے گئے قرضوں کی تفصیلات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو پیش کردیں، اور بتایا کہ حکومتی قرضوں میں 22 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔

ڈائریکٹر جنرل قرضہ جات نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ میں بتایا کہ 30 جون 2008 کو سرکاری قرضوں  کا حجم 6 ہزار 215 ارب روپے تھا 30 جون 2013 کو سرکاری قرضوں کا حجم 14 ہزار 291 ارب روپے تھا، مارچ 2019 میں  سرکاری قرضوں کا حجم 28 ہزار 605 ارب روپے تھا، 10 سال میں قرضوں میں 22 ہزار390 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی بجٹ کے لیے 22 اور 24 مئی کی تاریخ دی گئی ہے تاہم بجٹ کے لیے 11 جون کی تاریخ زیر غور ہے بجٹ کی حتمی تاریخ وزیر اعظم دیں گے کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل بینک بنگلہ دیش کیس میں  40 ملین روپے کی ریکوری کی گئی جب کہ بنگلہ دیشی افسران سے مزید 50 ملین روپے کی کیش ریکوری ہوسکتی ہے ڈائریکٹر نیب کراچی نے کہا کہ نیشنل بینک بنگلہ دیش کیس کی سیٹلمنٹ کے لیے احتساب عدالت سے رجوع کیا جائے۔

قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں پیپلزپارٹی نے اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل کی مخالفت کردی، پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں کی گئی ترامیم ایک مذاق ہے بل کو اتنی جلدی میں  پاس نہیں ہونے دیں گے، ایف اے ٹی ایف کو بتانے کے لیے بل یہاں لایا گیا، مشیر خزانہ پارلیمنٹ میں  پیش ہوکر مطمئن کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عمران خان قرضوں  سے متعلق مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں، وزارت خزانہ بتائے 10 سال میں  کتنا قرضہ واپس کیا گیا، کی عائشہ گوث پاشا کا کہنا تھا کہ اس بل میں  تحقیقاتی افسر کو گرفتاری کے اختیارات دیے گئے ہیں،  ایسا کہاں  ہوتا ہے اراکین نے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل پر بریفنگ کے لیے مشیر خزانہ کو کمیٹی میں  پیش ہونا چاہیئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔