افغانستان میں قیام امن تاحال دور ہے

غیرملکی تمام فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تب ہی افغان بحران کسی انجام پر پہنچ سکتا ہے


Editorial June 03, 2019
غیرملکی تمام فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تب ہی افغان بحران کسی انجام پر پہنچ سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI: افغانستان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اعلان کیا ہے کہ افغان حکومت کے خلاف اس وقت تک لڑائی جاری رکھیں گے جب تک ہمارے اہداف پورے نہیں ہوجاتے۔ یہ پیغام چند روز پیشتر جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے عوام بھی کئی عشروں سے جاری رہنے والی اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ اس جنگ کا ہر صورت میں خاتمہ بالخیر چاہتے ہیں۔ دریں اثنا مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے امریکا کا متعین کردہ نمایندہ پاکستان کے دورے پر یہاں پہنچ گیا ہے۔ امریکا نے افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو اپنا خصوصی نمایندہ مقرر کر رکھا ہے جن کی کوشش ہے کہ کسی طرح افغان مسئلہ کا حل ممکن بنایا جا سکے۔ زلمے خلیل زاد اپنے سفارتی مشن پر کئی مرتبہ پاکستان آ چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ خطے کے دیگر ممالک کے بھی متعدد دورے کر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس گنجلک اور پیچیدہ مسئلہ کی ڈور کا سرا ان کے ہاتھ نہیں آ سکا جس سے مسئلہ کے حل کی امید پیدا ہو سکے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ طالبان پہلے فائر بندی پر متفق ہوں تا کہ بعد میں مصالحتی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔ طالبان نے عیدالفطر کی چھٹیوں میں تین دن کے لیے لڑائی بند کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ لیکن وہاں حالات ایسے ہیں کہ اس قسم کے دعوؤں پر بھی فریقین مکمل طور پر قائم نہیں رہتے اور کسی نہ کسی خلاف ورزی پر لڑائی کی آگ ازسرنو بھڑک اٹھتی ہے۔ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ افغان قوم گزشتہ چالیس سال سے قربانیاں دے رہی ہے۔ لہٰذا کوئی کس طرح توقع کر سکتا ہے کہ جنگ کی آگ پر فوری طور پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا جائے۔ انھوں نے کہا مسئلے کا حل ایک ہی ہے کہ غیرملکی تمام فوجیں ہمارے ملک سے نکل جائیں تب ہی افغان بحران کسی انجام پر پہنچ سکتا ہے۔

افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے جن کے انخلاء کے لیے طالبان نمائندے امریکی سفارت کاروں سے سالہا سال سے مذاکرات کر رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ مبصرین کے نزدیک اصل رکاوٹ یہ ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہیں کیونکہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔ اس لیے طالبان براہ راست امریکی نمائندوں سے ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ دوحہ قطر میں طالبان کے ساتھ بات چیت طویل عرصہ سے جاری ہے بلکہ اب تو ماسکو میں بھی مذاکرات شروع ہو چکے ہیں جن کی قیادت روس حکومت نے کی ۔ ویسے تو چین بھی کسی نہ کسی حوالے سے مصالحتی کوششوں میں شریک ہے۔ افغان حکام کو مذاکرات سے کسی مثبت نتیجے کی کوئی امید نہیں نظر نہیں آتی کیونکہ ان کے خیال میں طالبان مذاکرات کی آڑ میں اپنی پوزیشن کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔بہرحال فریقین نے تاحال امید کا دامن نہیں چھوڑا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ممکن افغان مسلے کا کوئی حل نکل ہی آئے۔

مقبول خبریں