1992 کا منجن اب بیچنا بند کردیں

سلیم خالق  اتوار 7 جولائی 2019
مکی آرتھر جو کہیں وہ مان لیتے، انضمام کی کسی بات کو بھی نہیں ٹالتے، اس کا نقصان ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

مکی آرتھر جو کہیں وہ مان لیتے، انضمام کی کسی بات کو بھی نہیں ٹالتے، اس کا نقصان ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

’’پاکستان کل500 رنز بنا کر بنگلہ دیش کو 100 سے بھی پہلے آؤٹ کر دے گا اور ہم سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے، سرفراز نے بھی ایسا ہی عزم ظاہر کیا ہے‘‘ آفس کے ایک ساتھی نے جب مجھ سے یہ کہا تو بے ارادہ میں قہقہہ لگانے لگا، اس کی آنکھوں میں چمک تھی اسے میرا انداز پسند نہ آیا اور کہا ’’اب آپ سے کل ملاقات ہو گی اور  ہاں پورے آفس کیلیے مٹھائی لانا نہ بھولیے گا‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے شائقین کرکٹ کتنے بھولے ہیں جو آسانی سے باتوں میں آ جاتے ہیں، جو ٹیم افغانستان کیخلاف بمشکل میچ جیتی، کمزور ویسٹ انڈیز کو نہ ہرا پائی وہ کیسے بنگلہ دیش کو تاریخ کی بدترین شکست دے سکے گی۔

لوگ بھی بیچارے کیا کریں ہر ایونٹ میں ٹیم سے اچھی کارکردگی کی آس لگاتے ہیں اور جواب میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا،1992ورلڈکپ میں فتح کا منجن 27 سال سے بیچا جا رہا ہے، اس میں  2017 کی چیمپئنز ٹرافی کا اضافہ ہو چکا کہ جی ہم نے انگلینڈ میں سرفراز کی زیرقیادت ٹرافی جیتی تھی اب پھر ایسا ہی کر لیں گے، مگر کیسے اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا، ورلڈکپ سے قبل ہی سلیکٹرز اور ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے سنگین غلطیاں سامنے آئیں مگر کسی نے کوئی توجہ نہ دی، سلیکشن کتنی درست تھی اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ٹاپ  پرفارمرز میں  شامل محمد عامر اوروہاب ریاض ابتدائی اسکواڈ کا حصہ ہی نہ تھے مگر میڈیا اور عوام کے دباؤپر لیاگیا۔

اس طرح محمد حسنین ایسا خفیہ ہتھیار تھا جسے آزمانے کی زحمت ہی  نہ کی، اگر وہ اتنا اچھا بولر نہیں ہے تو منتخب کیوں کیا اور اگر اچھا پیسر ہے تو کسی بھی میچ میں کھلایا کیوں نہیں، اس کا جواب کس سے پوچھیں، اتنے بڑے ایونٹ کیلیے ٹیم میں 2 اوپنرز فخر زمان اور امام الحق کو لیا گیا جو 8میں سے صرف 2 میچز میں 50 سے زائد کا آغاز فراہم کر سکے، درمیان میں ٹیم مینجمنٹ نے تبدیلی کا سوچا مگر کوئی آپشن ہی موجود نہ تھا۔

کیا چیف سلیکٹر انضمام الحق نے  دانستہ کسی کو فائدہ پہنچانے کیلیے ایسا کیا اس کی تحقیقات ہونی چاہیے، عابد علی کو کیوں واپس بھیجا گیا یہ راز عوام کے سامنے کھولنا چاہیے، کیا آپ جانتے ہیں کہ ورلڈکپ کیلیے ابتدائی اسکواڈ منتخب کرنے میں کپتان سے کوئی رائے ہی نہیں لی گئی تھی،جس وقت دنیا تیاریوں کو حتمی شکل دے رہی تھی تب سلیکٹرز نے سرفراز سمیت کئی سینئرز کو یو اے ای میں آسٹریلیا سے سیریز کے دوران’’ریسٹ‘‘ دے دیا، اسی دوران کوچ کے ساتھ مل کر انضمام الحق نے پلیئرز کا انتخاب کر لیا، اس کا علم کپتان کو میڈیا کے ذریعے ہوا، بدقسمتی سے سرفراز کئی معاملات میں بہت زیادہ نرم ہیں، انھیں اپنے اتھارٹی منوانی چاہیے مگر وہ ایسا نہیں کرسکے۔

مکی آرتھر جو کہیں وہ مان لیتے، انضمام کی کسی بات کو بھی نہیں ٹالتے، اس کا نقصان ہوا، ورلڈکپ کے حتمی اسکواڈ میں جب انھوں نے محمد عرفان، احمد شہزاد  اور شان مسعود کو شامل کرنے کا کہا اور سلیکشن کمیٹی نے بات کو اہمیت نہ دی تو سرفراز کو اسٹینڈ لینا چاہیے تھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح خاموش رہے، انضمام  نے کمزور سلیکشن کمیٹی اسی لیے بنائی تاکہ من مانی کر سکیں، ان کی توجہ بھاری تنخواہ، مراعات اور غیرملکی دوروں پر ہی رہی، کئی کروڑ روپے بورڈ سے لینے کے بعد بھی انھوں نے اپنے دور میں کوئی ایک کھلاڑی ملک کو ایسا نہیں دیا جسے اپنی دریافت قرار دے سکیں، پی ایس ایل کی بنیاد پر پلیئرز کو ٹیسٹ بھی کھلا دیے۔

2007کے ورلڈکپ میں انضمام روتے ہوئے گئے اور اب2019کے ورلڈکپ میں رلاتے ہوئے جا رہے ہیں،وہ ویسے ہی بورڈ کی ملازمت کے دنوں میں کئی دیگر کام کرتے رہے، اب پھر کہیں اورچلے جائیں گے مگر ان سے حساب کون لے گا کوئی  نہیں، کیا کوئی پوچھے گا کہ وہ کیوں ورلڈ کپ ٹور سلیکشن کمیٹی میں شامل ہوئے اور کوچز کے کام میں دخل اندازی دیتے رہے؟اسی طرح کوچ مکی آرتھر بھی چیمپئنز ٹرافی کے سوا ٹیم کو کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں دلا سکے، وہ اب خود کہہ چکے کہ آئی پی ایل سے آفر ہے، وہ بھی پروفائل بنا کر چلے جائیں گے، سرفراز کی کپتانی کا ابھی کچھ واضح نہیں مگر ون ڈے اور ٹیسٹ میں ان کا عہدے پر برقرار رہنا دشوار ہے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ بورڈ نے کوئی نائب ہی تیار نہ کیا، عماد وسیم کو آگے لانے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان پرٹیم میں گروپنگ کا الزام ہے، بورڈ نے ایسی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا جس کا نقصان اٹھانا پڑا، ایونٹ میں ٹیم کی فیلڈنگ سب سے خراب رہی، ہم پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر رہے مگر کیچ چھوڑنے میں ورلڈ چیمپئن کا ٹائٹل ضرور جیت لیا، بولرز میں عامر، وہاب اور شاہین کے سوا دیگر کی پرفارمنس اچھی نہیں تھی، جو اچھا پرفارم کرے کریڈٹ ضرور بولنگ کوچ اظہر محمود کو دیتا جس کی ہدایت بھی ملی ہوتی، حسن علی جیسے بولرز بدترین ناکامی کا شکار ہوئے اس کا الزام کوئی سر لینے کو تیار نہیں۔

شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے سینئرز بالکل بھی توقعات پر پورا نہ اترے، کپتان سرفراز کی انفرادی کارکردگی بھی اچھی نہ رہی، فخر زمان  نے بہت زیادہ مایوس کیا، اندھیروں میں امید کی کرن بابر اعظم ثابت ہوئے جنھوں نے تسلسل سے عمدہ پرفارم کیا،حارث سہیل اور عماد وسیم نے بعض اچھی اننگز کھیلیں، پورے ایونٹ میں ناکام امام الحق نے آخری میچ میں سنچری سے اگلی سیریز کیلیے ٹیم میں جگہ پکی کرلی، اسپنر شاداب خان غیرمعمولی پرفارم نہ کر سکے،معیاری آل راؤنڈرز کی کمی بھی محسوس ہوئی،’’پاور ہٹر‘‘  آصف علی کو  2ہی میچز کھلائے گئے،مجموعی طور پر ٹیم نے بے تحاشا غلطیاں کیں جن کا خمیازہ بھگتنا پڑا، کم سے کم فائنل فور میں تو آنا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔

اس خراب کارکردگی کی وجوہ کی مکمل انکوائری کرانی چاہیے،بس اس کا سربراہ بھی برطانوی ایم ڈی وسیم خان کو نہ بنا دیجیے گا جو 20 لاکھ ماہانہ لے کر زیادہ تر وقت اپنے وطن میں سرکاری دوروں پر ہی رہے ہیں، غیرجانبدار کمیٹی بنائیں جو ڈومیسٹک سسٹم خراب ہے ملک میں کرکٹ نہیں ہو رہی جیسے روایتی بہانوں کے بجائے ٹھوس وجوہ تلاش کرے،1992 میں ایسا ہوا تھا یا ہم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی ایسی باتوں پراب پابندی لگا دینی چاہیے، کب تک ہم ماضی میں زندہ رہیں گے، نیا ایونٹ نئے ماحول میں ہوتا ہے اس کی تیاریاں کریں  اور اچھی کارکردگی دکھائیں، دیکھتے ہیں بورڈ اس ایونٹ سے کوئی سبق سیکھتا ہے یا نہیں۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔