عدم برداشت ، معاشرتی ہم آہنگی کی دشمن

تحریم قاضی  اتوار 18 اگست 2019
عدم برداشت انسانیت کے خوشنما چہرے پہ بدنما دھبہ ہے۔ ایسا دھبہ جس کو مٹانے کا خیال مشکل سے ہی دل میں اترتا ہے۔

عدم برداشت انسانیت کے خوشنما چہرے پہ بدنما دھبہ ہے۔ ایسا دھبہ جس کو مٹانے کا خیال مشکل سے ہی دل میں اترتا ہے۔

رویے انسانی زندگی کا خاصا ہیں۔ ہمارا لہجہ، انداز بیان، آداب ملاقات اور تعلقات کو نبھانے کا اسلوب رویوں کی ہی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔

مشہور مقولہ ہے کہ غصہ کے وقت صبر کا ایک گھونٹ انسان کو ہزاروں پچھتاووں سے بچا لیتا ہے۔ انسان کی زندگی جذبات و احساسات سے عبارت ہے۔ انسانی رویے جذبات و احساسات کی غمازی کرتے ہیں، کبھی انسان پہ خوشی کے جذبات کا غلبہ ہو تو وہ ہنس کر ان کا اظہار کرتا ہے۔

دل غم و یاس میں گرفتہ ہو تو آہیں اور سسکیاں دم بھرتی دکھائی دیتی ہیں، کبھی دل شوخی و شرارت پر اکسانے لگے تو طفلانہ فعل سے تسکین حاصل ہوتی ہے مگر ایک عجیب گھمبیر احساس غصے اور عدم برداشت کی صورت پیدا ہوتا ہے اور اس کی تباہ کاریاں انسان کی زندگی کا چین و قرار لوٹ لیتی ہیں۔ یہ احساس اپنے ساتھ طوفانی بگولے لے کر آتا ہے اور برسوں سے قائم رشتوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے۔

رشتوں اور تعلق داریوں کی جن فصلوں کی آبیاری محبت و اخلاص سے کی جاتی ہے، عدم برداشت کے سیلاب سے پل بھر میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ یہ رویہ اتنا بدصورت اور بھیانک ہے کہ ہر رشتے اور تعلق کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ایک وقتی کیفیت ہوتی ہے اور جب انسان اس کے چنگل سے نکلتا ہے تو وہ تہی داماں رہ جاتا ہے۔ پھر خود کو کوسنے اور پچھتانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ پاتا۔ انسان کو اپنی اس نادانی کاادراک اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے ہی ہاتھوں سب ملیامیٹ کرچکا ہوتا ہے۔

عدم برداشت انسانیت کے خوشنما چہرے پہ بدنما دھبہ ہے۔ ایسا دھبہ جس کو مٹانے کا خیال مشکل سے ہی دل میں اترتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ شدت پسندانہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھر ہو یا بازار، سکول ہو یا پارک، آفس ہو یا پکنک سپارٹ عدم برداشت کے عملی مظاہرے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مرض معاشرے کی رگ و پے میں اترچکا ہے۔ ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی رویوں تک ہر چیز اس کی لپیٹ میں ہے۔ یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ وباء ہر سو پھوٹ پڑی ہے اور علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو اکثریت اس سے نابلد ہے۔ عدم برداشت کے مظاہرے کئی صورتوں میں سامنے آسکتے ہیں۔

سماج کو نگلتی ہوئی عدم برداشت دھیرے دھیرے ہمارے سماج کو کھوکھلا کررہی ہے۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر رویے خطرناک حد تک بدصورتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر سو بھیانک و کریہہ صورتوں والے رویوں کے دیس میں آنکلے ہیں۔ اس کی مثال معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان سے ہی مل جاتی ہے جہاں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی برداشت مل کر پورا خاندان آزماتا ہے اور انہیں اس قدر زچ کردیا جاتا ہے کہ بات عدم برداشت کی دہلیز پار کرجاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ سب آناً فاناً ہوجاتا ہے بلکہ یہ مسلسل عمل ہے جس سے رفتہ رفتہ انسان قابو کھو دیتا ہے۔ یوں ہی کسی کے اندر ہر وقت کیڑے نکالے جائیں، اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے، بات بات پہ طنز و طعنے دیئے جائیں تو ایک روز برداشت جواب دے جاتی ہے اور انسان عدم برداشت کا اسیر بن جاتا ہے۔ سڑکوں پہ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو راستہ دینے کو تیار نہیں اور جو زرہ دیر کے لیے اشارہ بند ہو تو نان سٹاپ ہارن دے کر سب کا جینا حرام کردینا ایک معمول کی بات ہوگئی ہے۔

مہذب قوموں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ سڑک کراس کرنے والوں کے لیے راستہ دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں تو زرد اور نارنجی بتی پہ بھی کوئی رک کر پیدل کو رستہ دینے پر تیار نہیں۔ یہی حال ہر اس جگہ کا ہے جہاں پر برداشت کا مظاہرہ مقصود ہے۔ بینکوں میں بل جمع کرانے کی بات کریں تو قطار بناکر انتظار کرنا تو گویا خلاف شان سمجھا جاتا ہے اور اگر غلطی سے قطار میں کھڑے ہوہی گئے تو کوسنے اوردھکے دے کراگلے کو عاجز کردینا اپنی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد یوٹیلیٹی سٹورز پر دھکم پیل، سیل پہ دھینگا مشتی اور شادیوں پہ طعام میںبدمزگی تو عام روش ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت کس نہج پر پہنچ چکی ہے۔

نجی زندگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو حالات ابتر ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں لیکن یہی لباس اپنے بدن سے بیزار دکھائی دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے جہاں سارے موڈ کا بیڑا غرق کردیتے ہیں وہیں یہ معصوم بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ سلسلہ کہیں رکتا نہیں بلکہ چلتا ہی رہتا ہے۔ صبح ہی صبح شوہر بیوی سے لڑ کر آفس جاتا ہے اور وہاں اپنے کسی ماتحت پر بلاوجہ برہم ہوجاتا ہے۔ وہ گھر جاکر اپنے کسی بچے کو جھڑک دیتا ہے اور وہ بچہ کسی دوست کو مار کر اپنا  غصہ نکالتا ہے۔ یوں یہ وباء کی مانند ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد میں منتقل ہوجاتا چلا جاتا ہے جس کے سبب معاشرے میں ڈپریشن بڑھتا چلا جاتا ہے۔

دفاتر کی بات کی جائے تو وہاں یہ عالم ہے کہ افسر اپنے ماتحتوں اور ماتحت اپنے افسران سے نالاں ہیں اور اگر نہیں تو چند خیر خواہ اپنے حسد کی بنا پر انہیں دوسروں کی نگاہوں میں گرانے کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اپنے ساتھی ورکرز کی لیگ پلنگ کرنا دراصل اس عدم برداشت کا نتیجہ ہے جو اپنی فطرت پہ قابو نہ پانے کا شاخسانہ ہے۔

مذہبی عدم برداشت

مذہبی معاملات میں عدم برداشت بعض اوقات مذہبی انتہا پسندی کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنارہی ہے۔ ایک فرقے کا بندہ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز پڑھنے کو تیار نہیں۔ یہ تو ابھی نہایت معمولی سی بات ہے دو الگ الگ اہل فکر کے لوگ ایک دوسرے سے رشتہ داری تو درکنار کلام کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ کئی قیمتی جانیں فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ کبھی تو مذہب کے نام پر عدم برداشت کے واقعات کا محرک اپنے ذاتی و اجتماعی اغراض و مقاصد ہوتے ہیں جن کو مذہب کی آڑ میں چھپا کر پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی اقلیتوں کے حقوق کو غضب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی اکثریت پہ جارحیت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

مذہبی لحاظ سے ایک دوسرے کو طنز کا نشانہ بنانے والے اپنے لیے بھی بے سکونی کا سامان پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بعض وقات اس قدر طوالت اختیار کرجاتا ہے کہ وہ شخص خود تو دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اپنے رویے سے نفرت کے ایسے بیج بوجاتا ہے جن سے اُگنے والے پودے سدا ہرے رہتے ہیں اور یوں تن آور درخت بن جاتے ہیں۔ دین کو عمیق نگاہوں سے جانچا جائے تو بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ دین میں برداشت کا جو سبق دیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ مگر انسان صرف اپنے اندر اُبھرنے والے جذبات کو قابو نہ کرسکنے کی وجہ سے صبرو برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور زندگی بھر کے پچھتاوے اپنے نام کرلیتا ہے۔

عدم برداشت کی وجوہات

عدم برداشت کی بے شمار وجوہات ہیں جن کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس سے قبل یہ جاننا بھی ناگزیر ہے کہ عدم برداشت بنیادی طور پر ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہاگر یہ ایک ذہنی کیفیت ہے تو اس کے اثرات اتنے خطرناک کیونکر ہیں تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انسانی ذہن ہر لمحہ مختلف کیفیات وارد ہوتی ہیں۔ ان کیفیات کا موجب وہ جذبات و احساسات ہیں جو انسان کے دل میں اٹھتے ہیں۔ جن کا محرک وہ اعمال و افعال ہوتے ہیں جن سے اس انسان کا واسطہ پڑرہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی جبلت پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ عدم برداشت کے باعث جنم لینے والے بھیانک رویے کی صورت واضح ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت نے انسان کی جبلت میں کچھ چیزیں رکھ دی ہیں جن میں ان کو کنٹرول کرنے کا مکینزم خود انسان کے ہاتھ میں دے کر اسے بااختیار ہونے کا احساس دلایا ہے اور یہی برداشت انسانیت کی معراج تک لے جانے کا ذریعہ ہے۔

انسان صبرو برداشت سے زندگی کی کٹھن راہوں پر چلنے لگے تو کبھی لڑگھڑا کر نہ گرے۔ مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات سے ہم اس قدر شاکی رہتے ہیں کہ انہیں امتحان سمجھ کر صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انہیں وبال جان کر برداشت کا دامن کھو بیٹھتے ہیںجس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ رویہ انسان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑے میاں بیوی میں ایک معمول کی بات ہیں مگر اگر یہ طوالت اختیار کرجائیں تو عدم برداشت کی مداخلت پر یہ رشتہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پاتا۔رشتوں میں برداشت کے بنا زندگی ادھوری ہے۔ جہاں برداشت کی ڈوری ٹوٹتی ہے، وہیں انسان وحشتوں اور ویرانیوں کی گہری کھائیوں میں گرجاتا ہے۔ جہاں وسوسوں کے اژدھا دن رات ڈستے ہیں اور نیل و نیل جسم پر مرہم لگانے کی ہمت کھوجاتی ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا مشکلات پیدا کرتا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اگرملاقات کا وقت طے کیا ہے اور کوئی بروقت پہنچنے سے قاصر رہا تو یہ جانے بغیر کے ہوسکتا ہے اسے راستے میں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑگیا ہو اس سے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے۔ برداشت کرنا کتنا آسان ہوتا ہے، اس کا علم و ادراک انسان کو اس لمحے ہوتا ہے جب وہ خود اس کیفیت سے گزرتا ہے۔ بالکل اسی طرح عدم برداشت کے سبب بدصورت رویوں کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خود ان رویوں کا شکار ہوتا ہے۔

برداشت کرنا سیکھئے، خوش رہئے

جی ہاں مذکورہ بالا تمام باتوں کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ عدم برداشت کا کوئی توڑ نہیں۔ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کی جائے تو اس کا حل خود اسی میں موجود ہے۔ ’’عدم برداشت‘‘ میں سے ’عدم‘ کو حذف کردیں تو آپ ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔

ہم آپ کو چند ایسے رہنما اصول بتائیں گے جن پر عملدرآمد کرکے آپ اپنی زندگی میں صبر و برداشت کو لازمی عنصر بنالیں گے اور کامیابیوں کی منزل طے کرتے چلے جائیں گے۔

٭ جہاں تک ممکن ہو اپنے غصے پہ کنٹرول کریں، غصہ آنے کی صورت میں لمبی لمبی سانسیں لیں اور ایک گلاس پانی پئیں۔

٭ جب لگے کے کوئی چیز آپ کی برداشت سے باہر ہورہی ہے اور اب آپ مزید اس کا بوجھ نہیں اٹھاپارہے تو اس سے کنارہ کرلیجئے۔

٭ دوسروں کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں جو آپ کے نزدیک درست ہے ویہی صحیح ہو، دریا کے ایک کنارے پر کھڑے ہوکر آپ دوسرے کنارے کا فاصلہ نہیں جان سکتے۔ دنیا میں مختلف سوچوں کے لوگ بستے ہیں اور کائنات کا حسن اسی اختلاف رائے میں ہے۔

٭ یاد رکھیے بدلاؤ اس کائنات کی بقاء کے لیے لازم ہے۔ کوئی بھی شخص، رویہ یا حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ صبر سے مناسب وقت کا انتظار کیجئے۔ ہر چیز اپنے طے کردہ وقت میں آپ تک پہنچ جائے گی۔

٭ اپنے رب سے اپنا تعلق مضبوط کیجئے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ تھوڑا وقت کسی پرسکون گوشے میں بیٹھ کر اپنے رب سے ہم کلامی کریں۔ یہ آپ کو سکون قلب دینے کا باعث بنے گا۔

٭ اپنی خود ساختہ انا کے خول سے نکلنے کی کوشش کریں۔ ہر ایک سے اخلاص نیت سے پیش آئیں جو بھی ملے اس پر قناعت پسندی کا مظاہرہ کیجئے۔

٭ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کے بجائے صبر سے کام لیں۔ وقت آنے پر سب واضح ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔