بدحال معیشت اور ترسیلات زر

ثنا اکبر  بدھ 11 ستمبر 2019
معیشت کی ترقی و بحالی میں ترسیلات زر کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معیشت کی ترقی و بحالی میں ترسیلات زر کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بدحال معیشت، مہنگائی، بیروزگاری اور افراط زر کے عفریت سے نبرد آزما ہونے کےلیے 80 کی دہائی سے جاری تارکین وطن کی ہجرت کا دائرہ کار 80 لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے۔ امیگریشن بیورو کے اعداد و شمار پر نظرثانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف خلیجی ممالک میں 60 ہزار انجینئرز، 18 ہزار ڈاکٹرز، 30 ہزار اکاؤنٹنٹ اور 16 لاکھ مزدور اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔

ان تارکین وطن کی جانب سے گھریلو اخراجات و ضروریات کےلیے ہر ماہ خصوصاً تہواروں اور تقاریب پر بھیجی جانے والی خطیر رقم معیشت میں مختلف انداز میں گردش کرتی رہتی ہے، جسے ترسیلات زر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ترسیلات زر کا یہ عمل بظاہر سیدھا اور آسان دکھائی دیتا ہے، مگر معیشت کی ترقی و بحالی میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ کیونکہ برآمدات کے بعد ہی ترسیلات زر کے ذخائر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی کرنسی مستحکم کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اسے اگر معیشت میں سے کم کردیا جائے تو درآمدات کی ادائیگیوں کےلیے بیرونی قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ نتیجتاً بیرونی قرضوں کا حجم نامناسب حد تک بڑھنے سے ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں خلیجی جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے 80 ہزار پاکستانیوں کی واپسی پر ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوا۔

ترسیلات زر کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزیر خزانہ کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ادارے کی کثیرالجہتی حکمت عملی کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کےلیے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے، مائیکرو فائنانس و دیگر بینک اور بیرونی مبادلہ کمپنیز کو ترسیلات زر میں شامل کرنے کے ساتھ نئی مصنوعات مثلاً پردیس کارڈ، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ وغیرہ متعارف کروائی گئیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کی جانب سے جہاں بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کو 60 سیکنڈ میں ممکن بنایا گیا، وہیں موبائل والٹ سے رقم کی وصولی پر ہر ڈالر کے عوض دو سو روپے کا موبائل لوڈ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

مزید برآں بینک کی جانب سے پاکستان رقم کی منتقلی کو محفوظ بنانے کےلیے ترسیلات زر وصول کرنے پر پروسیڈ اسپیشلائزیشن سرٹیفکیٹ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ فروری 2019 میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ریمیٹینس ڈیجیٹل بینک کے قیام کےلیے اپنے معاون خصوصی زلفی بخاری کو پالیسیاں مرتب کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔

تمام تر اقدامات کے باوجود سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ پاکستان ابھی تک ترسیلات زر کی افادیت سے حقیقی معنوں میں مستفید کیوں نہیں ہوسکا؟ 80 کی دہائی سے جاری افراتفری میں تاحال کمی کیوں نہیں لائی گئی؟ حکومت دوسرے ممالک کے سامنے کشکول لیے کیوں کھڑی ہے؟

اس ضمن میں خاطر خواہ نتائج نہ برآمد ہونے کی سب سے نمایاں وجہ تارکین وطن میں شعور و آگہی خواہ سرمایہ کاری کے مواقع، ٹیکس چھوٹ، مالیاتی تعلیم، بچت اسکیم، قانونی بینکاری کے ذرائع اور ترسیلات زر وغیرہ سے متعلق ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ بیرون ملک مقیم تارکین وطن خصوصاً مزدور طبقہ ترسیلات زر کے قانونی ذرائع سے متعلق لاعلمی کے باعث بینکنگ سسٹم اور کاغذی کارروائی سے گھبرا کر رقم کی منتقلی کے منفی پہلو مثلاً منی لانڈرنگ وغیرہ سے ناواقفیت اور رقم منتقل کرنے والے افراد حوالہ اور ہنڈی کی طرف پیش کی جانے والی سہولیات کے باعث خودبخود ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے ترسیلات زر کا ایک بڑا حصہ حکومت کے بجائے غیر قانونی ذرائع کی نذر ہوجاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے رجسٹرڈ زر مبادلہ کمپنیز کو حاصل ہونے والے ہر روز 40 ملین میں سے 30 ملین حوالہ اور ہنڈی کی نذر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وقت کی جدت کے پیش نظر شعور و آگہی کے پھیلاؤ کے لیے کئی حفاظتی اقدامات اور پالیسیاں مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ زائد زرمبادلہ سے توازن ادائیگی کو بہتر بناتے ہوئے معاشی ناہمواری کو کم کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ثنا اکبر

ثنا اکبر

بلاگر نے بین الاقوامی تعلقات میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا ہوا ہے اور نجی کمپنی میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اردو ادب، فن خطابت اور ٖصحافت سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔