ایک کالم اپنے قارئین کے لیے

خرم سہیل  پير 18 نومبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

میں بہت دنوں سے یہ سوچ رہاتھا،ایک کالم اس نوعیت کالکھوں،جس میں براہ راست قارئین سے بات کی جائے خاص طورپر ایسے قارئین جو میرا کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور کچھ نکات ہیں،ان کو بھی زیر بحث لایا جائے۔ اس سے ایک دوسرے کوجاننے اورسیکھنے کا موقع ملتاہے۔ایک قاری کی حیثیت سے میں زمانہ ٔطالب علمی سے روزنامہ ایکسپریس پڑھتا رہا ہوں، پھر میںکچھ عرصہ نوجوانوں کے صفحات پر لکھتابھی رہا۔اس سے پہلے کئی مقامی اورچھوٹے اخباروں میں لکھ چکا تھا۔صحافت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔کئی برس تک مختلف اخبارات کے لیے لکھااوراب روزنامہ ایکسپریس میںہر منگل کو آپ سے مخاطب ہوتاہوں۔یہ میرا مختصر تعارف ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ کالم نویس سے پہلے میں بھی ایک قاری ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ میں قارئین کی تنقید اورحوصلہ افزائی دونوں کو خوش آمدید کہتاہوں۔مگر کچھ پہلوؤں کی وضاحت ضروری ہے۔سب سے بنیادی بات میرے کالم کا چونکہ عنوان’’جمالیات‘‘ہے،لہٰذا کوشش ہوتی ہے کہ میری تحریر جمالیاتی احساس لیے ہوئے ہو۔جس طرح کوئی طالب علم لڑکپن یا نوجوانی کے زمانے سے ہی یہ سوچ لیتا ہے ، مجھے فلاں شعبے میں تعلیم حاصل کرکے فلاں پیشہ اپنانا ہے، یا والدین چاہتے ہیں کہ ان کابیٹا یابیٹی بڑی ہوکر فلاں پیشہ اختیار کرے۔ اسی طرح زمانہ ٔ طالب علمی میں ،میں نے یہ سوچا کہ میں مصنف بنوں گا،جب لکھنے کی طرف آگیا تو یہ فیصلہ کیاکہ صرف فنون لطیفہ اورجمالیات پر لکھوں گا۔

دو موضوعات کے لیے میں شعوری طور پر کوشش کرتا ہوں، ان پر نہ لکھوں۔یہ موضوعات ’’مذہب‘‘ اور ’’سیاست‘‘ ہیں۔ مذہب پر اس لیے نہیں لکھتا کہ مجھے لگتا ہے ، میری معلومات اس موضوع پر نہ ہونے کے برابر ہیں اور مذہب ایک اہم،حساس موضوع ہوتا ہے، لہٰذا اس پر قابل لوگوں کو لکھنا چاہیے،جنھیں اس پر دسترس ہو۔ جہاں تک سیاست کی بات ہے،تو سیاست پر لکھنے والے اتنے ہیں کہ نہ پوچھیے،آپ مجھ سے زیادہ بہترطورپر جانتے ہونگے۔ ان دونوں موضوعات پر لکھنے والے تو بہت ہیں،مگر واقعی لکھنے والے بہت کم ہیں۔

مجھے ایکسپریس کے لیے لکھتے ہوئے پانچواں مہینہ ہے، اس عرصے میں قارئین کی طرف سے ای میلز،ٹیلی فون، موبائل پیغامات اورسوشل میڈیا پر پیغامات کی صورت میں تنقیدی اورتوصیفی دونوں طرح کا مواد موصول ہوتا رہا۔تنقید یا تعریف قارئین کاحق ہے،وہ اسے جیسے چاہیں ،استعمال کرسکتے ہیں ،مگر یہ ضرور ہے کہ تنقید کاانداز مہذب ہوناچاہیے۔سب سے زیادہ جس نکتے کے بارے میں مجھے پیغامات موصول ہوتے ہیں،وہ یہ ہے کہ فلاں موضوع پر آپ نے بہت اچھا کالم لکھا،لیکن فلاں کا ذکر نہیں کیا،فلاں حوالہ نہیں دیا،یا فلاں بات کہنا آپ بھول گئے۔

اب اس اعتراض کا جواب پڑھنے سے پہلے اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختراورہمارے محقق دوست عقیل عباس جعفری کی بات کوبطورمثال یہاں حوالہ پڑھیے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک کتاب’’اردو کی مختصر تاریخ‘‘ لکھی۔ پچھلے کئی برسوں میں اس کے کافی ایڈیشن شایع ہوچکے اوریہ ان کی ایک مقبول کتاب ہے،سب جانتے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا۔ڈاکٹر صاحب ادبی دنیا کے لوگ تو آپ سے بہت خوش ہوں گے ،آپ نے اتنی اچھی اورمقبول کتاب ’’اردو کی مختصر تاریخ‘‘لکھی ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے جواب دیا۔’’میں نے تو یہ کتاب لکھنے کے بعد جتنی تنقید برداشت کی ،وہ میں جانتا ہوں،کیونکہ جب یہ کتاب پہلی مرتبہ چھپ کر آئی، توسب سے پہلے ادیبوں اوردوستوں نے اس کتاب میںیہ کھنگالا کہ ان کا نام اس میں شامل ہے کہ نہیں؟اگر نہیں تو بس میری تحقیق ان کے لیے بے کارہوگئی۔‘‘دوسری مثال ہمارے تحقیقی تاریخ داں جنہوں نے ’’پاکستان کرونیکل‘‘ کے نام سے بیس برس سے زاید عرصے میں یہ کتاب مکمل کی۔انھیں سراہنے کی بجائے کئی لوگ ان سے اس لیے ناراض ہیں کہ انھوں نے ان کی تخلیق کا حوالہ کیوں نہیں دیا،ان کانام کیوں نہیں چھاپا۔

جب لوگ کتابیں لکھ کر کسی کو مطمئن نہیں کر پائے، تو میرے اس ننھے کالم کی کیابساط ہے،پھر ایک تکنیکی بات بھی عرض کردوں۔کالم لکھنے کے لیے کالم نویس کے سامنے الفاظ کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے،اسی میں محدودہوکر کالم لکھنا ہوتاہے،اس لیے ہر چیز کوضبطِ قلم کرنا ممکن نہیں۔اس کے علاوہ جس موضوع پر لکھا جارہا ہوتا ہے، اسی موضوع پرمرکوز ہونا پیشہ وارانہ ذمے داری ہوتی ہے۔مثال کے طورپر اگر مجھے قائد اعظم پرکالم لکھنا ہے، تو ہو سکتا ہے،مجھے صرف کالم میں ان کے طالب علمی کے زمانے کو لکھنا ہو،مگر اب کوئی مجھ سے یہ شکایت کرے ،آپ نے قائد اعظم کی زندگی کی درست عکاسی نہیں کی،تو اس شکایت کا ازالہ کیسے ہوسکتاہے،لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اعتراض بھی درست ہوتو تب بات بنے گی۔

پرنٹ میڈیا میں کام کرنیوالوں کی اکثریت ایسی ہے، جو میڈیا کے دوسرے ذرایع کی بہ نسبت ذرا زیادہ محنت کرتے ہیں قلم کاغذ والے کام میں زبان وبیاں،ذخیرۂ الفاظ، اسلوب اوراس کے علاوہ اپنا قیمتی وقت صرف کرنا پڑتا ہے، جب ہی ایک کالم تحریرہو پاتاہے۔کالم بھیجنے کی ڈیڈ لائن ایسے ہی ہے، جیسے کسی کو ملاقات کا وقت دیا ہواہو اورآپ ملنے نہ جائیں،لہٰذا اکثرموقعوں پرکالم کو دیگر کاموں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

جہاں تک میرے کالم کی بات ہے،تو میں تنقید سے سیکھتاہوں،کیونکہ میں توابھی طفلِ مکتب ہوں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ فنون لطیفہ اوراس سے متعلقہ موضوعات پر کالم لکھوں۔ان موضوعات پر نہ توخبروں کا ڈھیر دستیاب ہوتا ہے اورنہ ہی رات کو ٹی وی پر کوئی ٹاک شوز ہوتے ہیں،جن کو سن کر مجھے کالم کا مصالحہ مل جائے۔مجھے خالصتاً تخلیقی انداز میں موضوع کو تراشنا پڑتا ہے،پھر اسے تحقیق اور تخلیق کے مرحلے سے گزار کرکالم کی صورت میں ڈھالاجاتا ہے۔میں لکھتا تو اردو زبان میں ہوں، مگر کوشش ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے فنون لطیفہ، قدیم وجدید موضوعات،دنیا بھر کی رنگارنگ ثقافت اور تخلیقی سرگرمیوں کو موضوع بناؤں،اس کے لیے مجھے پورا ہفتہ ریاضت کرنا پڑتی ہے۔کچھ موضوعات ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر بہت کم مواد ہوتا ہے،اس کے لیے بہت تگ ودو کرنا ہوتی ہے۔شوبز اورادبیات سے متعلق یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ سرگرمیوں کو بھی قلم بند کیاجائے،اس کے لیے بھی ذہن متحرک رہتاہے۔کتابوں کا مطالعہ اس کے علاوہ ہے۔

لہٰذا یہ تمام کوششیں مل کر ایک کالم لکھواتی ہیں اورایک کالم نویس کا اثاثہ اس کے قارئین ہی ہوتے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ پاکستان اوردنیا بھر سے آپ کا ردعمل مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ توآپ جان گئے ،میں کن موضوعات پر لکھتاہوںان کے حوالے سے کچھ مجھے بتاناچاہتے ہوں یا کسی موضوع پر آپ کے خیا ل سے کالم لکھنا چاہیے ،تو آپ قارئین میری رہنمائی کر سکتے ہیں البتہ معدودے چند عناصر،جن کی تنقید کے پیچھے علمی رویے کی بجائے علامہ بننے کا زعم جھلکتاہے،ان سے میں معذرت کاطلبگار ہوں،وہ اپنی صلاحیتیں کہیں اورصرف کر لیا کریں تو میں ممنون ہوں گا۔ آخری بات جو یہاں کہنابہت ضروری ہے ایک کالم نویس اکیلا نہیں لکھ رہاہوتابلکہ وہ ایک ٹیم کا حصہ ہوتاہے۔ایکسپریس کی پوری ٹیم بھی اس کاوش میں ہمراہ ہوتی ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ آپ ہمارے روزنامے سے بذریعہ مطالعہ وابستہ ہیںیہ ہمارے لیے باعث مسرت ہے۔

میرے گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے آپ روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔کوئی بات گراں گزری ہو،تو معذرت خواہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔