بچوں کو صحت مند زندگی اور ماحول کی فراہمی: بڑا عالمی چیلنج

آمنہ اسلام  جمعرات 27 فروری 2020
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل جو بچوں اور نوجوانوں کی صحت کے سلسلے میں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہا ۔  فوٹو : فائل

پاکستان بھی ان ممالک میں شامل جو بچوں اور نوجوانوں کی صحت کے سلسلے میں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہا ۔ فوٹو : فائل

دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے بچوں کی صحت کے تحفظ کے لئے موزوں اقدامات کررہا ہو یا انھیں محفوظ مستقبل فراہم کرنے کے لئے صحت مند ماحول فراہم کررہا ہو۔ یہ بات دنیا بھر کے 40 ماہرین  پر مشتمل ایک کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ یہ کمیشن ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)، ’یونیسف‘ اور ’لانسیٹ‘نے قائم کیا ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہے:’’ دنیابھر کے بچوں کا مستقبل‘‘۔

رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ دنیا کے ہر بچے اور نوجوانوں کی صحت اور مستقبل کو ماحولیاتی انحطاط، آب و ہوا میں تبدیلی اور استحصالی مارکیٹنگ کے حربوں سے فروخت ہونے والے فاسٹ فوڈ، میٹھے مشروبات، شراب اور  تمباکو سے فوری طور پر خطرہ ہے۔

نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم اور کمیشن کی شریک چیئرپرسن ہیلن کلارک کا کہناہے کہ پچھلے20 برسوں میں بچوں کی صحت  میں بہتری کا عمل نہ صرف رک چکاہے بلکہ اب خرابی کی طرف بڑھ رہاہے۔ یہ اندازہ لگایاگیاہے کہ کم اور اوسط آمدنی والے ممالک میں، پانچ سال سے کم عمر تقریباً ڈھائی کروڑ بچے نشوونما نہ ہونے کے خطرہ سے دوچار ہیں۔اس کا سبب غربت ہے یا پھر نشوونما دینے والے متبادل اقدامات کا نہ ہونا ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب دنیا میں ہر بچے کو آب و ہوا میں تبدیلی اورکمرشل دباؤ سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ یادرہے کہ کمرشل دباؤ سے مراد ہے چیزوں کے خریدنے اور بالخصوص فروخت کرنے کے عمل کا دباؤ۔ مثلاً آپ کے اردگرد موجود کاروباریکمپنیاں ایک بھرپور دباؤ پیدا کرکے لوگوں کو اپنی مصنوعات خریدنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس کے لئے وہ نت نئی ، مختلف تدابیر اختیار کرتی ہیں۔ ہیلن کلارک نے مزید کہا کہ  کم اور اوسط آمدنی والے ممالک کوچاہیے، وہ بچوں اور نوعمر افراد کی صحت کے متعلق طریقہ کار پر سوچ بچار کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیںکہ ہم ایک محفوظ دنیا انھیں وراثت میں دیں۔

٭شدید ماحولیاتی تبدیلی،بچوں کے مستقبل کے لیے خطرناک

آب و ہوا کی تبدیلی میں شدت ہربچے کے مستقبل کے لئے خطرات پیدا کررہی ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ میں 180ممالک کا نیا عالمی انڈیکس بھی شامل کیاگیا ہے، اس میں بچوں کی نشوونما کے عمل کا موازنہ کیاگیاہے، ان ممالک کے اقدامات پر بھی نظر رکھی گئی ہے جو وہ بچوں کی بڑھوتری کے لئے کررہے ہیں۔ اس میں صحت ، تعلیم، تغذیہ، گرین ہاؤس گیس کے اخراج، بچوں کے حقوق اور آمدنی میں فرق کو بنیاد بنایاگیاہے، یہ سب پہلوبچوں کی بقا اور بہبود کے لئے ضروری ہیں۔

یادرہے کہ اس انڈیکس میں پاکستان کا 140 واں نمبر ہے۔ گیمبیا، کینیا، لاؤس، سینیگال، گھانا، انڈیا، روانڈا، سولومن آئی لینڈ جیسے ممالک نے پاکستان کی نسبت بہتر رینکنگ حاصل کی ہے۔اس رپورٹ سے پتہ چلتاہے کہ غریب ترین ممالک کو  اپنے بچوں کی صحت مند زندگی گزارنے کی صلاحیت میں بہتری اور نشوو نما  اور ضرورت سے زیادہ کاربن کے اخراج کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اگرموجودہ اندازوں کے مطابق سال 2100 تک عالمی درجہ حرارت میںمزید 4 ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوگیا تو اس کے نتیجے میں سمندروں کی سطح بلند ہوگی، گرمی کی لہر شدید ہوگی، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں وباؤں کی شکل اختیار کریں گی، غدائیت کی کمی کا معاملہ بھی بحران بن جائے گا، نتیجتاً بچوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

اس انڈیکس میں ناروے، جمہوریہ کوریا اور نیدرلینڈ میں بچوں کو بقا اور فلاح کے بہترین مواقع میسر ہیں جبکہ وسطی افریقہ، جمہوریہ چاڈ ، صومالیہ ، نائیجر اور مالی میں بچوں کو صحت سے متعلق بدترین مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ جب مصنفین نے فی کس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا جائزہ لیا تو رینکنگ میں بلند ترین ممالک نظر نہ آئے کیونکہ اس باب میںناروے کی رینکنگ156، جمہوریہ کوریا کی 166 اور نیدرلینڈ  کی 160 ہے۔ تینوں ممالک میں سے ہر ایک اپنے2030ء کے ہدف سے210 فیصد  زیادہ فی کسکاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتاہے ۔اس حوالے سے امریکا، آسٹریلیا اور سعودی عرب بھی دس بدترین ممالک میں شامل ہے۔

کمیشن کی شریک چیئرپرسن سینیگال سے تعلق رکھنے والی وزیر آوا کول سیک کا کہناہے کہ دو ارب سے زیادہ افراد ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں انسانی بحران، تنازعات  اور قدرتی آفات کی وجہ سے ترقی کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہیں اور ان کا ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ تعلق جڑا ہواہے۔ بعض ایسے بھی غریب ممالک ہیں جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ بہت کم خارج ہوتی ہے۔ اور اکثر ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کے قابو میں آچکے ہیں۔ دنیا میں بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں بچوں کو پلنے بڑھنے کے اچھے مواقع میسر ہیں، ان میں البانیا، آرمینیا، اردن، مالدوا، سری لنکا، تیونس، گریناڈا،  یوراگائے اور ویت نام شامل ہیں۔

٭کمرشل مارکیٹنگ کے بُرے اثرات، بچے11گنا موٹے ہوگئے

رپورٹ میں مارکیٹنگ کے بچوں کی صحت پر برے اثرات کا جائزہ بھی لیاگیا۔

بچوں کو نقصان دہ کاروباری مارکیٹنگ کی وجہ سے بچپن کا موٹاپا 11گناہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ شواہد سے پتہ چلتاہے کہ بعض ممالک کے بچے صرف ایک سال میں ٹیلی ویژن پر30ہزار سے زیادہ اشتہارات دیکھتے ہیں جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں دو برسوںکے دوران ای سگریٹ کی تشہیر میں 250 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اشتہارات24 ملین سے زیادہ نوجوانوں نے دیکھے۔

کمیشن کے مصنفین میں شامل ایک پروفیسر انتھونی کوسٹیلو کا کہنا ہے کہ صنعت کا سیلف ریگولیشن کانظام ناکام ہوچکاہے۔ آسٹریلیا، کینیڈا، میکسیکو، نیوزی لینڈ اور امریکا سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے لوگوں کے مطالعہ سے ثابت ہوا ہے کہ سیلف ریگولیشن بچوں کو اشتہارات دکھانے کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکے۔ مثلاً آسٹریلیا میں صنعتوں نے سیلف ریگولیشن کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود ایک سال میں فٹ بال ، کرکٹ، رگبی کے میچز کے دوران میں  بچوں اور نوعمر افراد کو شراب کے 51 ملین اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں۔حقیقت اس سے بھی بدتر اور خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایڈورٹائزنگ کے ذریعے یہ چیزیں اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی تعداد میں دکھائی جاتی ہیں۔

بچے جنک فوڈ اور چینی والے مشروبات کے اشتہارات دیکھتے ہیں، اس کے نتیجے میں وہ غیر صحت مندانہ مصنوعات خریدتے ہیں،

بچوں میں زیادہ وزن اور موٹاپا کی وجہ سے جنک فوڈ اور شوگربیوریجز کی خریداری ہے۔ جنک فوڈ کی اس حد تک مارکیٹنگ کی وجہ سے اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہاہے۔یہ صورت حال خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ موٹے بچوں اور نوعمروں کی تعداد1975ء میں 11ملین تھی جو 2016ء میں 124ملین ہوچکی ہے۔ یعنی گیارہ گنا اضافہ۔

بچوں کے تحفظ کے لئے قائم کمیشن کے مصنفین نے بچوںکے تحفظ کے لئے ایک عالمی تحریک چلانے کا مطالبہ کیا ہے اور درج ذیل سفارشات تجویز کی ہیں:

٭کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو فی الفور روکا جائے تاکہ اس دنیا میں بچوں کا مستقبل روشن اور محفوظ بنایا جاسکے۔

٭پائیدار ترقی  کے حصول کے لئے ہماری کوششوں کا مرکز و محور بچے اور نوعمر ہونے چاہئیں۔

٭ تمام شعبوں میں پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کرتے ہوئے بچوں کی صحت اور حقوق کو مدنظر رکھاجائے۔

٭بچوں کی آواز کو پالیسی سازی میں شامل کیا جائے۔

٭وفاقی سطح پر ایسے ضابطوں کو سخت کرناچاہئے جن کے نتیجے میں صحت کے لئے نقصان دہ اشتہارات کو پابند کیا جاسکے۔

جریدے ’لانسیٹ فیملی آف جرنلز‘کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر رچرڈ ہارتن کا کہناہے کہ  یہ ایک اچھا موقع ہے، شواہد موجود ہیں اور اوزار ہاتھوں میں ہیں۔ ریاست کے سربراہ سے لے کر مقامی حکومت تک، اقوام متحدہ کے رہنماؤں سے لے کر بچوں تک ،یہ کمیشن  مطالبہ کرتاہے کہ بچوں اور نوعمروں کی صحت کے لئے ایک نیا دور شروع کیاجائے،اس کے لئے ہمیں ہمت اور بلند عزم کی ضرورت ہے۔یہ ہماری نسل کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریتا ایچ فور کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی بحران  سے لے کر موٹاپے اور نقصان دہ کاروباری مارکیٹنگ تک دنیا بھر کے بچوں کو سخت خطرات کا مقابلہ کرنا پڑرہاہے، چند نسلیں پہلے تک ان خطرات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

اب وقت آگیاہے کہ بچوں کی صحت کے بارے میں دوبارہ غوروفکرکیا جائے، ہرحکومت اپنے ترقیاتی ایجنڈے میں اسے سرفہرست رکھے،  ان کی فلاح وبہبود کو تمام امور پر مقدم رکھے۔

اس رپورٹ سے پتہ چلتاہے کہ دنیابھر میں فیصلے کرنے والے اکثر لوگ بچوں اور نوجوانوں کی صحت کی حفاظت میں، ان کے حقوق کے تحفظ میں بلکہ اس سیارے کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ بچوں کی صحت اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنے ، ان کی آواز کو سننے، ان کے حقوق کی حفاظت کرنے اور بچوں کے لئے موزوں مستقبل کی تشکیل کے لئے اقدامات کرنا نہایت ناگزیر ہیں کیونکہ یہی بچے ہماری دنیا کے وارث اور ہمارا مستقبل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔