کورونا اور عطیات میں کمی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 27 مئ 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کورونا وائرس کے حملے نے رمضان المبارک میں خیرات اور زکوۃ پر بھی اثر ڈالا ۔ اس سال 150 بلین روپے کی زکوۃ وصول ہوئی۔ گزشتہ سال 170 بلین اور گزشتہ سے پیوستہ سال 158 بلین روپے کی خیرات وصول ہوئی تھی۔

اس مہینہ صرف زکوۃ کی رقم ہی کم نہیں ہوئی بلکہ مساجد اور مدارس کو ملنے والی زکوۃ ، فطرہ اور دیگر مد میں ملنے والے عطیات میں بھی کمی آئی ہے۔ زکوۃ کی مد میں 12 فیصد کمی کی کئی وجوہات ہیں۔

ایک تاجر نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پہلے زیادہ زکوۃ دیتے تھے، وہ گزشتہ ایک سال کے دوران معاشی بحران سے بدحالی کی طرف سفر کرگئے، یوں ان میں اتنی استطاعت نہیں رہی کہ اتنی زکوۃ دیں جتنی گزشتہ سال دی تھی۔

سب سے بڑے انگریزی اخبار کی بزنس ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ کراچی ملک میں فیاضی کا سب سے بڑا مرکز ہے، سیٹھ لوگ کم از کم 10 بڑی رفاہی تنظیموں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، یہ امراء صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں تنظیموں کو بھی وافر امداد دیتے ہیں۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ زکوۃ اور عطیات کے بارے میں مکمل اور تصدیق شدہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ زکوۃ و خیرات کے عطیات دستاویزات میں درج اعداد و شمار سے ہٹ کر رقم سے دیے جاتے ہیں، جنھیں عمومی طور پر (Out of Box) رقم کہا جاتا ہے۔

اس ملک کی مجموعی خراب معاشی صورتحال اور پھر کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کے فیصلے سے مساجد اور مدارس کی آمدنی بھی متاثر ہوئی ہے۔ عمومی طور پر مساجد اور مدارس کو رمضان المبارک کے مہینہ میں مختلف عنوانات کے تحت عطیات ملتے ہیں۔ ان عطیات میں زکوۃ اور فطرے کے علاوہ اجتماعی افطاری کے لیے رقم اور اجناس ، ہر نماز کے بعد جھولی پھیلانے کے ذریعہ عطیات وصول کرنے کی روایات خاصی قدیم ہے۔

جمعہ کے اجتماعات میں مساجد میں جگہ نہیں ہوتی اور بیشتر افراد چندہ کے ڈبہ یا جھولی میں کچھ نہ کچھ رقم ڈالتے ہیں۔ 27ویں شب کے لیے خصوصی اہتمام ہوتا ہے، ختم قرآن کے بعد شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔ لاکھوں افراد تراویح میں قرآن مجید ختم ہونے پر امام اور مؤذن کو جوڑے اور تحائف پیش کرتے ہیں، جب کہ صاحب ثروت افراد مختلف مساجد کے لیے علیحدہ سے عطیات بھجواتے ہیں۔

سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن سخت کیا ، یوں اس مہینہ میں مساجد میں لوگوں کی آنے کی تعداد کم ہوئی۔ جن مساجد میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد نہیں ہوا وہاں نمازیوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی اور وہاں عطیات میں بھی بہت زیادہ فرق نہیں پڑا مگر جن مساجد میں لاک ڈاؤن پر عمل ہوا، وہاں کی آمدنی کم ہوئی۔

افغان جنگ کے دوران مشرق وسطی، سعودی عرب، عراق اور لیبیا کی حکومتوں نے مساجد کی تعمیر اور مساجد کے اخراجات کے لیے خطیر رقوم فراہم کی تھیں۔  عرب شیوخ مساجد کو براہِ راست عطیات بھی دینے لگے تھے مگر بین الاقوامی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کی بناء پر یہ عطیات بند ہوگئے۔

مشرق وسطیٰ ، سعودی عرب، یورپی ممالک کے علاوہ امریکا اور کینیڈا میں مقیم پاکستانی گزشتہ برسوں تک اپنی پسندیدہ مساجد اور مدارس کو عطیات دینا اپنا فرض جانتے تھے مگر ایف اے ٹی ایف کی بینکوں پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی بناء پر یہ سلسلہ رک گیا۔

ایک ملٹی نیشنل بینک میں فارن کرنسی ٹرانزیکشن برانچ کے انچارج کا کہنا ہے کہ اگر بیرون ملک سے آنے والی کسی بھی رقم کی منتقلی کا مقصد زکوۃ یا عطیہ لکھا ہوتا ہے تو یہ معاملہ اسٹیٹ بینک کو منتقل کردیا جاتا ہے۔ اب بیرونی ممالک سے اس طرح کے ملنے والے عطیات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔

اسلامی امور کے ماہر پروفیسر سعید عثمانی کا تخمینہ ہے کہ اس سال مساجد کی آمدنی میں 40 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ عام آدمی نے لاک ڈاؤن صورتحال سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کے لیے خاصے عطیات دیے، معاشی بحران میں مبتلا عام آدمی کے لیے رمضان میں مساجد کو دوبارہ عطیات دینے کی سکت نہیں رہی۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقہ کے ہزاروں افراد اس بنیاد پر عطیات نہیں دے سکے کہ انھیں تنخواہیں نہیں ملی یا ان کی ملازمتیں ختم کردی گئیں۔

چھوٹے دکاندار اس پابندی کے نتیجہ میں معاشی بدحالی کا شکار ہوئے۔ ایک سرکاری یونیورسٹی میں تعینات اسلامیات فیکلٹی کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ ہر سال رمضان المبارک میں معروف علماء کو تراویح پڑھانے کے لیے ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک کے مسلمان مدعو کرتے تھے مگر ان ممالک میں لاک ڈاؤن کی بناء پر یہ تمام دورے منسوخ ہوگئے۔ مجموعی معاشی بحران اور پھر کورونا بحران نے اشرافیہ اور متوسطہ طبقہ سمیت ہر فرد کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد روپے کی قیمت میں کمی کی جس کا ایک طرف تو نقصان یہ ہوا کہ اربوں روپے کے قرضے بڑھ کر کھربوں روپوں میں تبدیل ہوئے تو دوسری طرف پاکستان کی برآمدات کو شدید نقصان ہوا۔ گزشتہ دو برسوں سے پاکستان  گرے لسٹ میں ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اس لسٹ سے نکالنے کے لیے جو شرائط دیں ان پر جب عملدرآمد شروع ہوا تو بینکنگ کی صنعت کو سخت دھچکا لگا۔اکاؤنٹ کھولنے، رقم جمع کرنے ، کیش نکالنے اور Online Transaction پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد ہوگئیں، حتیٰ کہ انعامی بورڈ کی اسکیم پر بھی  پابندی لگ گئی۔ اس کے ساتھ نیب نے شفافیت کے نام پر جو اقدامات کیے تو تاجروں نے بینکوں سے رقوم نکلوالیں اور مارکیٹ کساد بازاری کا شکار ہوئی۔

ابھی حکومت نے تاجروں اور صنعت کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے تھے اور کچھ کا وعدہ کیا تھا کہ کورونا وائرس نے تہلکہ مچادیا، پورے ملک میں معاشی سرگرمیاں مفلوج ہوگئیں۔ اس صورتحال سے اشرافیہ کا طبقہ تو متاثر ہوا متوسط طبقہ بھی شدید بحران میں مبتلا ہوا۔ ایک طرف مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان نے لوگوں کی کمر توڑ دی ، بینکوں اور بڑی کمپنیوں سے لے کر چھوٹے اداروں میں بے روزگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ سفید پوش خاندانوں میں صرف نوجوانوں کی ملازمت نہ ملنے سے ہی صورتحال گھمبیر نہیں ہوئی بلکہ 40 سے زائد عمر کے افراد میں ملازمتوں سے محروم ہونے سے متوسط طبقہ جو فیاضی میں سب سے زیادہ آگے رہا ہے براہِ راست متاثر ہوا۔

وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کے طریقہ کو قبول نہیں کیا، وزیر اعظم ہمیشہ لاک ڈاؤن کے نقصانات بیان کرتے رہے۔ ڈاکٹروں کے دباؤ پر نیم دلی سے لاک ڈاؤن ہوا جس سے معیشت متاثر ہوئی۔ اب لاک ڈاؤن نرم ہوچکا ہے اور کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑ ھ رہی ہے، جون میں بجٹ کا اعلان ہوتا ہے۔ بجٹ پورے مالیاتی سال کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ اب حفیظ شیخ کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کا بجٹ تیارکریں کہ ملک میں صنعتوں کو تحفظ حاصل ہو، لوگوں کو روزگار ملے اور غربت کی شرح کم ہوا، تاکہ اگلے سال پھر زکوۃ کی رقم میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوپائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔