خطے میں تبدیلی کی ہوائیں اورپاکستان

فاروق عادل  پير 27 جولائی 2020
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

حسینہ واجد کو نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں دیکھا پھر ان کی سیاست کا مسلسل پیچھا کیا توکُھلا کہ اس خاتون سے خیر کی توقع عبث ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب بے نظیر بھٹو حزب اختلاف میں تھیں اور حکومت کو مشکل سے دوچار کرنے کے نت نئے طریقے سوچا کرتی تھیں۔

اِن ہی دنوں انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ سارک ملکوں کی حزب اختلاف کا بھی ایک پلیٹ فارم بنا دیا جائے۔بے نظیر نے یہ سوچا اور کر گزریں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلاکہ بلاول ہاؤس، پریس کلب اور آواری ٹاورز تین روز تک سارک ملکوں کی خوشبو سے مہکتا رہا۔ایسے مواقعے پر گو اختلافات اور رنجشیں بھی زیر بحث آتی ہیں اور انھیں دور کرنے کے لیے سنجیدہ مباحث بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجودقیادت کے لہجے میںحلاوت برقرار رہتی ہے اور کڑوی سے کڑوی بات بھی وہ اس آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ دلوں پر گراں نہیں گزرتی۔

سارک اپوزیشن فورم کے ان اجتماعات میں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا لیکن اگر اس میں کوئی استثنا تھا تو وہ حسینہ واجد کی صورت میں سامنے آیا۔ان تین دنوں میں جن کے چہرے پر مسکراہٹ دکھائی دی اور نہ ان کے منہ سے خیر کا کوئی کلمہ نکلا۔ایشیا کرکٹ ٹورنامنٹ ڈھاکا میں ہوا تھا، یہ ٹورنامنٹ پاکستان نے جیتا ۔حسینہ واجد وزیر اعظم کی حیثیت سے مہمان خصوصی تھیں، پاکستان کو فتح سے ہم کنار ہوتا دیکھ کر اسٹیڈیم سے نکل گئیں کہ کہیں انھیں پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹرافی نہ دینی پڑ جائے۔ قومیں ایسے مواقعے سفارتی پیش قدمی کے لیے استعمال کرتی ہیں لیکن حسینہ واجد کو یہ بھی منظور نہ تھا ۔آج یہی حسینہ واجد بالکل مختلف دکھائی دیتی ہیں۔عمران خان سے ٹیلی فون پر ان کا حالیہ رابطہ اسی تبدیلی کا عکاس ہے۔

عمران خان اورحسینہ واجد کو اس تبدیلی کا کریڈٹ ضرور ملنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی تبدیلی کی ان ہواؤں کا شکر گزار ہونا بھی ضروری ہے جن کے جھکڑ ان دنوں خطے میں چل رہے ہیں۔ ایک سابق بھارتی سفارت کار کا خیال ہے کہ لداخ کے محاذ پر چین بھارت کشیدگی محض کوئی اتفاق یا حادثہ نہیںتھا بلکہ اس کے پس پشت ایک جامع حکمت عملی دکھائی دیتی ہے جس پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ طویل عرصے تک غور و فکر کیا گیا ہو گا۔ کیا یہ حکمت عملی محض لائن آف کنٹرول پر کشمیر کے معاملات تک محدود ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو بھارتی سفارت کار کا تجزیہ مختلف ہوتا۔ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ان کی پریشانی محض لداخ کا محاذ نہیں ، اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے جو ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

خطے میں ایک بڑی پیش رفت ایران اور چین کے درمیان ایک جامع تزویراتی معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کے تحت ایران میں بھارت کے لیے گرم جوشی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ایران نے اپنی بندر گاہ چاہ بہار تک ریلوے لائن پہنچانے کے لیے بھارت کو جو ٹھیکہ دے رکھا تھا، اسے منسوخ کردیا گیا ہے جب کہ چاہ بہار کی بندر گاہ کے معاملات سے بھی بھارت کی بے دخلی ہی کے امکانات ہیں۔گوادر کے بعد چاہ بہار تک چین کی رسائی خطے کی معیشت اور تجارت کے معاملات میں ہی ایک بڑی تبدیلی کا پتہ نہیں دیتی بلکہ علاقے میں نئی حربی اور دفاعی صف بندی کا انکشاف بھی کرتی ہے۔

اس تبدیلی کا دائرہ صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے متعدد دیگر ملک بھی ان بدلتے ہوئے حالات میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ان ملکوں میں ایک اہم ملک نیپال ہے۔ دنیا کی یہ واحد ہندو ریاست  ہے جو دل سے کبھی بھارت کے ساتھ نہیں رہی کیوں کہ سمندر سے محروم ہونے کی وجہ سے بھارت نے ہمیشہ اسے بلیک میل کیا اور پریشانی سے دوچار کیے رکھا، یہاں تک کہ را نے اس ملک کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ہمیشہ ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا۔ان مجبوریوں کی وجہ سے اس ملک کو ہمیشہ بھارت کے تابع مہمل کا کردار ادا کرنا پڑا لیکن آج یہی ملک بھارت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہے اور اس سے اپنے علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔

سری لنکا اور چین کے درمیان پرانی کاروباری رفاقت ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں نے اس میں مزید وسعت پیدا کی ہے جس کے نتیجے میں سری لنکا میں چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بھارت کے تعلق سے ہمارے ان دیرینہ دوستوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطوں میں نسبتاً کمی دیکھی جا رہی تھی ۔

یہی سبب تھا کہ سابق صدر جناب ممنون حسین کی کسی غیر ملکی دورے سے واپسی کے موقعے پر ان کے کولمبو میں قیام کا خصوصی طور پر اہتمام کیا گیا۔سری لنکا کی قیادت سے بات چیت کے نتیجے میں صدر ممنون حسین نے محسوس کیا کہ میزبان ملک میں ہر سطح پر پاکستان کے لیے گرم جوشی اور اس کے ساتھ تعاون میں اضافے کی فطری خواہش پائی جاتی ہے لیکن وہ بھارت کی طرف سے خوف اور خدشات کا بھی شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ پاتی لیکن چین کی نئی حکمت عملی کے بعد صورت حال میں واضح تبدیلی رونما ہورہی ہے۔

ان ہی دنوں بنگلہ دیش بھی اسی قسم کے تجربے سے گزر رہا ہے۔اب وہ زمانہ گیا جب نریندرمودی جیسے بھارتی رہنما ڈھاکا جاکر فخر سے دعویٰ کیا کرتے تھے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے مکتی باہنی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں وہ بھی شریک رہے ہیں۔بنگلہ دیش میں چین کی تازہ سرمایہ کاری کے بعد دیگر ملکوں کی طرح وہاں بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اب اس کی قیادت بھی بھارت کے اثر سے آزاد ہو کر حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کررہی ہے۔عمران خان کے ساتھ حسینہ واجد کی بات چیت، باہم نیک تمناؤں کا اظہار اور مل کر کام کرنے کا عزم ان ہی بدلے ہوئے حالات کی نشان دہی کرتا ہے۔

چین اور ایران کے درمیان اسٹرٹیجک معاہدے کی تفصیلات سامنے آئیں تو ہمارے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاک چین اقتصادی راہ داری میں ہماری طرف سے سست رفتار پیش رفت سے مایوس ہو کر چین گوادر کو نظر انداز کر کے چاہ بہار کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کی وجہ سے اس طرح کے خدشات کو مزید تقویت مل گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ خطے میں چاہ بہار سمیت کوئی بھی ایسی بندرگاہ نہیں ہے جو گوادر کا متبادل بن سکے ، اس لیے گوادر کے ذریعے پاکستان کو ملنے والے مواقع کے ضایع ہونے کا تو کوئی خطرہ کسی طرح سے بھی نہیں ہے ، البتہ کچھ خطرات ایسے ہیں جو پاک چین تعلقات کے لیے حقیقی چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی سرزمین سے ابھرنے والے ایک صاحب ضمیر دانش ور ایڈورڈ سعید نے برسوں پہلے لکھا تھا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ مسلمانوں اور چین کے درمیان اعتماد، قربت اور تعاون کے رشتے مضبوط ہوں۔ اس امریکی حکمت عملی کے بہت سے شواہد موجودہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران میںاقتصادی راہ داری کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد اس حکمت عملی میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے اور اوغور مسلمانوں پر تشدد کے نام پر مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان میں چین سے نفرت پیدا کرنے کی مہم میں غیر معمولی شدت پیدا کر دی گئی ہے۔اس مہم میں بہت سے پاکستانیوں اور مسلمانوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکی جامعات ایسے لوگوں میں ان دنوںبڑی فراخ دلی سے وظائف تقسیم کررہی ہیں۔

پاکستان کے سامنے ایک چیلنج یہ ہے جو ماضی کی طرح اسلام ہی کے نام پرخطے کو دہشت گردی کی ایک نئی دلدل میں دھکیلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جب کہ دوسرا چیلنج خطے میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کا ہے جس کے معیشت اور معاشرت کے علاوہ سیاست پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طرح کی صورت حال میں اپنی معیشت، معاشرت اور سیاست  کو قومی مفادات کے تابع رکھنے کے لیے داخلی استحکام کی اشد ضرورت ہے جس پر توجہ میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ بدلتے ہوئے خطے میں پاکستان منظر پر کہیں دکھائی نہیں دیتا تو عمران حسینہ رابطے نے اس تاثر کی نفی کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔