پیشگوئیاں جو پوری نہ ہوئیں

ڈاکٹر عبید علی  منگل 11 اگست 2020
دعوے جو دھرے کے رہ گئے، وعدے جو وفا نہ ہوئے۔ فوٹو: فائل

دعوے جو دھرے کے رہ گئے، وعدے جو وفا نہ ہوئے۔ فوٹو: فائل

سن 2020 کا آغاز ایک پراسرار بیماری کی خبر کے ساتھ ہوا۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے اور طاقتور ملک چائنا میں تمام سال نو کی تقریبات ماند اور صنعتی مشینیں سرد پڑ گئیں۔

ہر طرف سنسناہٹ اور خوف پھیلتا رہا۔ زندہ لوگ اور چائنا کے عوام شب وروز انتھک محنت سے نئی وبا سے لڑتے رہے۔ دنیا عملی طور پر خاموش تماشائی رہی۔ دنیا کے حساس مگر بے بس عوام چینی بھائیوں کے لیے دعائیں کر رہے تھے اور چین کرب کے سخت ترین ایام سے گزر رہا تھا۔

اس خوددار ملک نے نہ ہاتھ پھیلایا، نہ کسی سے مدد مانگی اور نہ اپنے اوسان خطا کر کے ہر آنے والے مدد کرنے کے خواہش مند کو خوش آمدید کہا۔ ایسے موقع پر ان کا گہری آہٹ پر نظر رکھنا قابل ستائش اور قابل تقلید ہے۔ دروازے سختی سے بند کر دیے گئے تھے۔ ہر معلومات جاری ہونے سے پہلے چھننے لگی۔ ادھر بیماری جغرافیے سے باہر اکادُکا کرکے پھوٹنے لگی۔

دوسری دنیا میں سنجیدگی کا ہر جگہ فقدان تھا۔ سیاست کا بحران تھا۔ اشتراک اور تعاون تو ہر موضوع پر کمزور ہی تھا۔ وقت ٹھہرا نہیں، گزرتا گیا۔ وائرس کا دائرہ تمام اصولوں سے بالاتر نت نئی شکل کے ساتھ ابھرتا رہا۔ دنیا چائنا سے بے نیاز اپنے سفر میں مشغول تھی اور خاموش وائرس اپنی جگہہ بنا رہا تھا۔

چارہ گر تھے یا موقع پرست منصوبہ ساز، خوف کے بادل کھینچ رہے تھے۔ کبھی قیامت کی کہانی سناتے، کبھی انسانوں کی صفحہ ہستی سے مٹنے کی بات کرتے اور بلاناغہ لاچارگی کا راگ لاپتے تھے۔ کیا خوب صورت ویرانی کا خاکہ تھا جس نے مکڑے کے جال کی طرح افواہوں کو پائے دار جگہ دی۔ ماہ مارچ کا آخر تھا۔ آدھی دنیا بند کی جاچکی تھی۔ خودساختہ عالموں کا ڈگری یافتہ طبقہ ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے کا اشرافیہ، ہر قریے، ہر سمت انسانوں کو قید کرنے کی بات کی جا رہی تھی۔

وائرس کے آزاد پوری دنیا میں پھیلتے رہنے کے نقارے ضرورت سے زیادہ زور سے بجائے جاتے رہے۔ کچھ دیواریں بنا دی گئی جہاں من پسند کے اعدادوشمار بلاناغہ بتائے جانے لگے۔ سوالوں پر پابندی اور سوچنے پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ ابلاغ عامہ ہو یا منبر، اسپتال ہو یا میدان، سماجی فاصلے کے ڈنکے ہر لمحے بلاتعطل بجائے گئے۔ ہر جگہ کے معزز سائنس داں ہوں یا طبیب، راہنما ہو یا خطیب، شہرت کی خاطر یا موروثی خصوصیت کی بنا پر ڈھٹائی سے تکرار کرتے رہے، جس کی وجوہات سے ناآشنا تھے اس پر اصرار کرتے رہے۔ اپنا کام چھوڑ کر قوم کو ذہنی بیمار کرتے رہے۔ انسانی ٹولوں کو، ذہین دانش مندوں کو بے زار کرتے رہے۔

ہمارے اپنے ملک میں یہ تماشا خوب رچایا گیا۔ کمیٹیاں بنیں، سائنس کے نام پر پیسہ بہایا گیا، حقیقت کو جھٹلایا گیا۔ تقریباً ہر طرف جعلی آوازیں تھیں۔ معاشرے میں زہریلی ملاوٹ تھی۔ سائنس بھی کثیف اور آلودہ یرغمال نظر آئی۔ پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہوتی رہی۔ معتبر شفا خانوں کے معزز گلیوں کوچوں میں کرتب دکھاتے رہے کہ کالا بھوت آئے گا، سڑکوں پر لاشیں پڑی ہوں گی۔ آپ عید مل لیے ہیں تو اب آپ مریں گے، نفسانفسی ہوگی۔ لاشوں کو ہاتھ نہ لگانا۔ سماجی فاصلہ، سماجی فاصلہ، سماجی فاصلہ۔ مسجد بند کرو، پارک بند کرو، سڑکیں ویران کرو۔ میت کو مت نہلاؤ، قبرستان مت جاؤ۔ سائنسی وجوہات سے عاری ان نعروں کا تسلسل سمجھ سے بالاتر تھا۔

زبردست افسردگی ، بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش، خودکشی اور ادویات کی زیادتی میں اضافے اور معاشرتی بدامنی بری طرح سرائیت کرگئی۔ لوگ مال و دولت بنانے میں تمام اخلاقی حدود پار کر گئے۔ ڈھٹائی اور جھوٹ کی انتہا دیکھیے۔ دم بخود تھا جب دعوے سنتا تھا۔ پیش گوئیاں چھپتی تھیں۔ کبھی بازار میں اینٹی باڈی بیچی جاتی تھی تو کبھی کلوروکوئین، تو کبھی انسانی خون۔ شعوری سطح کے نچلے ترین مقام پر خود کو پاکر بھی اپنے پست قد کے اقرار کی جرأت نہ تھی۔ کیا اخلاق پایا کیا، میراث پائی کہ جو کچھ کہا جھوٹ کہا۔ دوسرے کی کہانی کو اپنا بنایا، فریبی تاثرات دیے۔ مکروہ امیدیں دیں۔ حوصلہ اور ہمت دیکھیے۔ آج بھی اسی توانائی کے ساتھ بغیر کسی لاج کے ہم سماج میں نمودار ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عاقبت اندیش سائنس داں، بڑا طبیب، اور عظیم راہ نما گردانتے ہیں۔

دیکھیے، سوچیے، ہم نے کیوں آنکھیں بند کرلیں۔ زندہ سوالات کو غیر اہم سمجھ کر رد کر دیا۔ ایک گھر میں ایک کو مثبت آیا اور بقیہ گھر والوں کو منفی آنے پر ہمارے کان نہیں کھڑے ہوئے۔ ایک ہی گھر میں دو بھائی مثبت آ ئے۔ ایک کو علامت بھی نہیں آئی اور دوسرا جو اسپتال گیا وہ لوٹ نہ سکا۔ جی ہاں، دستانے پہننے والے، اکیلے رہنے والے رفقاء میں بھی مثبت آیا اور کئی گورکن تھے یا ایمبولینس ڈرائیور، آ ج بھی منفی ہیں۔ روشنیاں نظر آ رہی تھیں مگر شاید ہم اندھیرے کے تعاقب پر تلے تھے۔ ہم نے پارک بند کر دیے تھے سڑکیں بند کر دی تھیں، مساجد بند کر دی تھیں، لوگوں کی تذلیل کی جاتی تھی، اشرافیہ بالکونی میں ڈفلی بجاتی تھی۔

لاچار لوگوں کا مذاق اڑاتی تھی۔ ملازموں پر غراتے تھے۔ احتیاط کم، بزدلی عیاں تھی۔ وائرس سے تیز جھوٹے پیغامات اور کمزور اندیشے لمحوں میں پھیلتے تھے اور ہر جگہ سکتہ طاری کرتے تھے۔ اسپتالوں کے دروازے بند کیے جارہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ سڑکوں پر وائرس کا طوفان ہے۔ گھر کے علاوہ ہر طرف موت ناچ رہی ہے۔ دھڑا دھڑ سینیٹائزر کو بیچنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔ بازاروں میں اسپرے کر کے صارف کو ڈرایا، دھمکایا اور نہلایا جارہا تھا۔ گاڑیوں پر، سڑکوں پر اسپرے کیا جاتا تھا۔ کھمبے دھوئے جاتے تھے۔ ایک طرف کچھ لوگ مرض کا احساس کر رہے تھے اور دوسری طرف تاجر اس احساس کا استحصال کرنے میں مصروف۔ کچھ ویکسین بنارہے تھے اور کچھ لگن کے ساتھ تصویریں۔ عجب سماں تھا۔ بے بنیاد دعوے تھے اور لمبے لمبے وعدے۔ کورونا وائرس وبائی مرض کے دوران ، اکابرین نے نادانستہ طور پر جدید مقامی علم کے حامل افراد کو بحث اور فیصلہ سازی میں دور رکھ کر جدید تاریخ میں ایک انتہائی سنگین انسانی تباہی پھیلائی۔

جن ماڈلز کی بنیاد پر پیش گوئی کی جارہی تھی اس کے بنیادی مفروضے کھوکھلے تھے۔ اس کے وقت کے سانچے ربڑ کی طرح نرم تھے۔ غیریقینی کی صورت حال کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اعدادوشمار نہ ثابت تھے، نہ سالم تھے نہ قابل اعتبار۔ ایک مخصوص سیاق و سباق میں لکھے گئے ماڈلز کی بنیاد پر پوری قوم کو ہیجان میں جکڑ کر سماج کو معذور کر دیا گیا تھا۔ دیگر سائنسی کاوشوں کے برعکس، جس میں محققین مستقل طور پر طریقوں کی تطہیر کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر دنیا کے بارے میں کسی سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، وبائی امراض کے ماڈلز اکثر ایسے ڈیزائن کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے ہمیں ایک انتہائی آپس میں لاتعلق عمل کے بارے میں مختلف مفروضوں کے مضمرات کا باقاعدہ جائزہ لینا پڑتا ہے جس کے بارے میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف الہام کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ماڈلز ان چیزوں کی وجہ سے محدود ہیں جو ہم جانتے ہیں اور ہم کیا فرض کرتے ہیں، لیکن مناسب حد تک اور ان حدود کو سمجھنے کے ساتھ، وہ اس وبائی مرض کے ذریعے ہماری راہنمائی میں مدد کرسکتے ہیں۔ درحقیقت ، کوویڈ۔19 ٹرانسمیشن سے وابستہ بہت سارے نکات کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں گیا جس کے نتیجے میں ماڈلز کی غیریقینی صورت حال کا ہمیشہ معیاری انداز میں حساب نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر ریاضی کے ماڈلز کی پیش گوئیاں اس لحاظ سے کہ کتنے بستر اور کتنے آئی سی یو بیڈ کی ضرورت ہوگی، وہ یقیناً صحیح ثابت نہیں ہوئیں۔

ابتدائی تخمینوں سے اموات کا خطرہ بہت کم ثابت ہوا۔ 45 سال سے کم عمر افراد کے لیے “تقریباً 0 فی صد” تاہم اوسطاً اموات کی شرح تقریباً 0.25 فی صد رہی جب کہ 85 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ خطرہ کافی حد تک بڑھا ملا اور نرسنگ ہومز میں کمزور افراد کے لیے بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ اس سے یہ بات عیاں ہو گیا کہ کسی ملک میں اموات کی شرح عمر کے ڈھانچے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، کون سے لوگ متاثر ہیں اور ان کا انتظام کس طرح کیا جانا چاہیے۔ علاج کے دعوے کرنے والے دراصل انفیکشن کے نتیجے میں انسانی جسم کے اندر ہونے والے انفرادی تغیرات کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

وائرس کش ادویات یا اینٹی باڈی کے نام پر صرف دکان چمکائی جا رہی تھی۔ جب صورت حال سنبھلنے لگے تو نئے نئے شو شے چھوڑے جاتے۔ کبھی یہ کہا جاتا کہ وائرس کی ساخت تبدیل ہوگئی ہے۔ عجیب و غریب سائنسی دعوے اور خود نمائی کی جاتی۔ شیخ الجامعات، طبیب، ان کی انجمن، شوقین سیاست دانوں نے عوام کو مستقل مزاجی سے اور بے شرمی سے گمراہ کرنے کا ٹھیکا اٹھایا ہوا تھا۔ ان کے جملے برقی تاریخ کے کتب خانے میں عجوبہ بن کر محفوظ ہوچکے ہیں جو قومی ذہنی استعداد سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ اس نے یقیناً قومی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ راقم تو حیرت کے سمندر میں غرق ہو چکا اور سوچتا ہے کہ لاعلم لوگوں سے سائنس کے موضوعات پر تالی بجوانا بدترین سفاکی ہے۔ اس غلاظت کی کراہیت نکالی نہیں جاسکتی۔ یہ مصنوعی ذہانت اور اعدادوشمار کے علوم کے علاوہ سچائی سے لگن رکھنے والوں کی بھی دنیا ہے۔ شاید کہ آنے والا وقت اس غیرمعیاری کلاکاری کو کوویڈ 19 کے سہارے بے نقاب کرے۔

کوویڈ 19 کا دور بیت سے سبق چھوڑ کر جارہا ہے۔ یہ غیرمتوقع ارتقاء بشمول مالی بحران، بدامنی، خانہ جنگی، جنگ اور معاشرتی تانے بانے کے خسارے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ اس پورے قصے میں سب سے بڑا سوال دراصل یہ تھا کہ سنگین نتائج کے بغیر کب تک لاک ڈاؤن کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

عزیزوں، یہ افسوس ناک امر ہے کہ اسٹالن کے “کولخوز” اجتماعی کاشتکاری کے نظام سے لے کر ماؤ کے گریٹ لیپ فارورڈ تک اور اس سے آگے تک جدید تاریخ کی سب سے بڑی تباہی کا سہرا ان مرکزی منصوبہ سازوں کے سر جاتا ہے جو طاقت کے بل بوتے پر انسانیت کی بہتری کو بہتر بنانے کی جھوٹی کوشش کر رہے ہیں۔ آئیے مطالعے کی ترغیب دیجیے۔ یاد رکھیے سائنس کسی کے گھر کی کھیتی نہیں۔ خواب دیکھنے والوں کی انجمن بنائیے۔ کسی وبا کی صورت میں وجۂ وبا کا پیچھا کیجیے، اسے سمجھیے تاکہ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھ سکیں۔ بیماری کے مضمرات کا گہرائی، ثبوتوں اور مشاہدوں کے ساتھ مطالعہ کیجیے۔ چیزوں سے، میز کرسی سے وائرس کے پھیلنے کے خاطرخواہ ثبوت نہیں ملے اس اس لیے باہر نکلنے سے غیرضروری خوفزدہ نہ ہوئیے

ہاں آپس میں قریب قریب غیرضروری رہنے سے گریز کیجیے۔ مجمعے میں کم وقت گزاریے۔ تنگ جگہوں میں ان جانوں کا لمبے وقت کے لیے مجمع لگانے سے پرہیز کیجیے۔ تازہ ہوا کی فراوانی کو اپنی زندگی میں خاطرخواہ جگہ دیجیے۔ اندھادھند علاج کی ترویج نہ کیجیے، خوف سے باز رہیے اور اوسان بحال رکھیے۔ ہم ہر کچھ نہیں ٹال سکتے لیکن جو جان بچائی جا سکتی ہے اسے کسی خوف کی آڑ میں درد یا موت کے حوالے نہ کیجیے۔ نہ موت بیچیے نہ زندگی خریدیے۔ خوشیوں کا، امیدوں کا پیچھا کیجیے۔ یہی ہمارے کل کی خوش حالی اور پائے داری کی ضمانت دے گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔