جس طرح چڑیا گھر میں غفلت ہوئی لگتا ہے پوری ریاست ہی ایسے چل رہی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 27 اگست 2020
 ذمہ داروں کو کم از کم 2 گھنٹے شیر والے پنجرے میں بند ہونا چاہیے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ۔ فوٹو : فائل

ذمہ داروں کو کم از کم 2 گھنٹے شیر والے پنجرے میں بند ہونا چاہیے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ جس طرح چڑیا گھر میں غفلت ہوئی لگتا ہے پوری ریاست ہی ایسے چل رہی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کیس سے متعلق سماعت ہوئی جس میں وزیر مملکت زرتاج گل اور معاون خصوصی ملک امین اسلم کی جانب سے سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے، چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا جن کو شوکاز نوٹس جاری کئے ان کے جواب جمع ہوگئے، جانوروں کی ہلاکت افسوس ناک ہے اس سے پتہ چلتا ہے ملک کو کیسے چلایا ہے، آفیشلز ممبران نان آفیشلز پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں جب کہ جن کی ذمہ داری تھی وہ اپنی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت؛ زرتاج گل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ جب کچھ غلط ہو گیا تو وزارت نے کہا کہ ہمارا تو کوئی تعلق ہی نہیں، یہاں پر جانوروں کا کھانا بھی چوری ہوتا رہا ہے، بہت کچھ تھا جو ہم نے فیصلے میں نہیں لکھا وہ ہمارے لیے اور بھی شرمندگی کا باعث بنتا، یہاں جانوروں کے حوالے سے قوانین پر کوئی عمل کرنے کے لیے تیار نہیں، شہر کے بااثر طبقے نے یہاں نیشنل پارک کو تباہ کردیا ہے تاہم عدالت اس وقت شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ کیوں نا جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو انہی پنجروں میں بند کردیں، کم از کم 2 گھنٹے تو ذمہ داروں کو شیر والے پنجرے میں بند ہونا چاہیے، جس طرح چڑیا گھر میں غفلت ہوئی لگتا ہے پوری ریاست ایسے ہی چل رہی ہے، جو جانور تکلیف میں ہیں پہلے ان کی مشکلات کو دور کرنے کا بندوبست کریں۔

دوران سماعت وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم اور وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے جواب کے لیے مہلت مانگ لی جس پر عدالت نے جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔