آئی بی اے کراچی میں غیر تدریسی ملازمہ کے ساتھ ہراسگی کا کیس رپورٹ

صفدر رضوی  اتوار 18 اکتوبر 2020
آدم جی بلاک کے انچارج کے کیمپس میں داخلے پر پابندی سے عائد کردی گئی. فوٹو : فائل

آدم جی بلاک کے انچارج کے کیمپس میں داخلے پر پابندی سے عائد کردی گئی. فوٹو : فائل

کراچی:  آئی بی اے(انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) میں مبینہ طور پر غیر تدریسی خاتون ملازم کے ساتھ ہراسگی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔

واقعہ سامنے آنے کے بعد ایک خاتون فیکلٹی ممبر کی جانب سے اس واقعہ کی تحریری اطلاع دیتے ہوئے آئی بی اے کی انتظامیہ سے معاملے کی چھان بین کی درخواست کی گئی ہے جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے معاملہ چھان بین اور تحقیقات کے لیے نو تشکیل شدہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔

اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث غیر تدریسی ملازم آیت اللہ میمن پر تحقیقات مکمل ہونے اور انکوائری رپورٹ سامنے آنے تک کیمپس میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ آیت اللہ میمن آئی بی اے کے مرکزی کیمپس میں قائم آدم جی بلاک کے انچارج ہیں ادھر “ایکسپریس” کو معلوم ہوا ہے کہ ہراسگی کے مذکورہ واقعہ پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کا پہلا اجلاس اتوار کو آئی بی اے کراچی میں نئے چیئرمین کمیٹی ڈاکٹر سعید غنی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں ہراسگی کے مبینہ واقعہ کی متاثرہ خاتون کی ای میل اراکین کمیٹی کو پڑھ کر سنائی گئی جس میں متعلقہ خاتون نے ہراسگی کے کسی بھی واقعے کی سرے سے نفی ہی کردی ہے اور متعلقہ خاتون کا کہنا ہے دفتر میں موجودگی کے دوران اچانک ان کی طبعیت خراب ہوگئی تھی جس کے سبب انھیں آیت اللہ درانی کو بلانا پڑا تاہم ہراسگی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا وہاں موجود طلبہ اس معاملے کو غلط رنگ دے رہے ہیں۔

دوسری جانب کمیٹی کے اجلاس میں واقعہ کے عینی شاہدین طلبہ و غیر تدریسی عملے کے افراد بھی پیش ہوئے جبکہ کچھ عینی شاہدین کے zoom کے ذریعے بھی بیانات لیے گئے۔ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے طلبہ نے اراکین کو بتایا کہ” متعلقہ مرد ملازم کے دفتر سے جب کسی نامعلوم خاتون کے چیخنے کی آواز بلند ہوئی تو طلبہ اور عملے کے بعض افراد اس دفتر کی جانب دوڑے تاہم دفتر کا دروازہ لاک پایا اور مسلسل کھٹکھٹانے پر دروازہ نہیں کھولا گیا۔ جب طلبہ کی جانب سے شور مچایا گیا تو متعلقہ ملازم اور آدم جی بلاک کے انچارج کی جانب سے دروازہ کھول کر بتایا گیا کہ کمرے میں موجود خاتون ملازم کی طبعیت خراب ہے۔

جب طلبہ دفتر کے اندر داخل ہوئے تو خاتون ملازم سر پر ہاتھ رکھے بیٹھی اور کھانس رہی تھی تاہم جب متعلقہ مرد ملازم سے دفتر کا دروازہ بند ہونے سے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ خاتون ملازم نماز پڑھ رہی تھیں لہذا میں نے دروازہ بند لاک کردیا تھا۔

ادھر کمیٹی کے چیئرمین کے قریبی ذرائع نے “ایکسپریس” کو بتایا کہ معاملہ ہراسگی  سے زیادہ ڈسپلن یا ملازمت کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کا محسوس ہوتا ہے کہ دفتر اوقات کے دوران ایک دفتر جس میں ملازم بھی موجود تھے اسے لاک کیوں کیا گیا اور اگر متعلقہ مرد ملازم درست بھی کہہ رہا ہے تو خاتون ملازم نے اپنا دفتر چھوڑ کر کسی دوسرے دفتر میں جاکر نماز ادا کیوں کی۔

علاوہ ازیں جب “ایکسپریس ” نے اس معاملے پر آئی بی اے کا انتظامی موقف جاننے کے لیے ترجمان سے رابطہ کیا تو انھوں نے واقعہ رپورٹ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اتوار کو اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی گئی ہے۔ کئی بیانات قلمبند کیے گئے ہیں جبکہ کمیٹی نے جائے وقوع کا دورہ بھی کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت کمیٹی 7 روز میں بیانات قلمبند جبکہ ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہے۔ انھوں نے متعلقہ مرد ملازم کے کیمپس آنے پر پابندی کی بھی تصدیق کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔