آہ ! فن خوشخطی اورکتابت کا شاہکار

قمر عباس نقوی  جمعـء 18 دسمبر 2020

آج سے سات دہائیاں قبل، انسان کی طرززندگی وہ نہ تھی جو آج ہے۔ جدید سائنس کی تیزی سے منازل طے کرتی ہوئی ترقی نے طرز زندگی یکسر بدل کر رکھ دی ہے۔ پوری دنیا کی زندگی سمٹ کر رہ گئی ہے اور انسان کا صرف وجود محض ایک مسلسل چلتی ہوئی مشین کی علامت بن چکا ہے۔

پہلے انسان اپنی عمر کے سوسال صحت وتندرستی کے ساتھ بآسانی گزار لیا کرتا تھا۔ جدید سائنسی طب کی جگہ دیسی ٹوٹکہ اور حکمت سے علاج معالجہ، سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ حیران کردینے والی سائنسی ترقی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا اور یوں یہ ٹیکنالوجی ترقی کی منازل طے کرتے کرتے آپ کے ہاتھوں میں اینڈ رائڈ اور اسمارٹ موبائل کی شکل میں محدود ہوکر رہ گئی جس نے الیکٹریکل تار ختم کرکے سب سے پہلے گراہم بیل کی برسوں کی محنت کا ثمر فکس ٹیلی فون کی افادیت کو ختم کردیا۔ گھڑی، ٹیلی گراف، ٹیلی گرام، ٹیلی ویژن، ریڈیو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں کتاب جیسی انمول نعمت سے بہت دورکردیا۔

نئے پڑھنے والوں کے لیے یہ باتیں شاید سمجھ سے بالاترہوں،ایک وہ دور تھا جس کے اکیڈمک سیشن کے ابتدائی پانچ سالوں میں یعنی پہلی سے پانچویں جماعت ہی سے اردوکی خوشخطی پر بہت زوردیا جاتا تھا اور عصر جدیدکے ہمنواؤں کے لیے یہ بات بھی کسی حیرت سے کم نہ ہوگی کہ اس خوشخطی کا عمل یا لکھنے کی مشق کسی کاغذکی کاپی پر نہیں بلکہ لکڑی سے تیارکردہ چوکور تختی تھی جس کی گرفت کے لیے تختی کے اوپری حصہ پر ہینڈل دیا جاتا تھا۔ تختی کے دونوں حصوں پرہلکی کاغذی لکڑی سے بنا ہوا قلم اورروشنائی کی مددسے لکھا جاتا تھا۔

لکھنے کے بعد تختی کے دونوں حصوں کو ملتانی یا مقامی زبان میں ’’گاچی‘‘کہا جاتا تھا،کی مدد سے دھودیا جاتا تھا اور اس کو سوکھنے کے لیے کچھ دیرکے لیے دھوپ کی سیک لگائی جاتی تھی۔ چھٹی کلا س سے انگریزی کی اے ، بی، سی، ڈی شروع کروا دی جاتی تھی۔ اس کی مشق ہولڈر میں فکس زیڈکی نب کی مدد سے چارلا ئنوں کی کاپی پرکروائی جاتی تھی۔ ریاضی کے مضمون کی ابتدا پہاڑوں سے کروائی جاتی تھی جن کو آج کل کی نسل ٹیبلز اورریاضی کو میتھس کے نام سے جانتی ہے۔ انگلش میڈیم کے چکر میں اکثر طلبا وطالبات اردو اور اسلامیات کے مضامین میں فیل ہوجاتے ہیں اگر پاس بھی ہوجاتے ہیں تو معمولی نمبروں سے۔

ابتدا میں صحافت کا نیٹ ورک صرف اخبارات ورسائل تک محدود تھا اور لوگو ں کی صبح اخبارکے مطالعہ کے ساتھ ہواکرتی تھی۔ اخبارکی سرخی ڈیزائن کے ساتھ ایک اچھی پریزینٹیشن شمارکی جاتی تھی۔ صحافت کے پس پشت ہنرمند اور غیرہنرمند افراد اخبارکی چھپائی اور اس کی بروقت اشاعت کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،جس میں سب سے زیادہ محنت طلب کام کتابت کا ہوا کرتا تھا۔کتابت وہ بھی روشنائی اور سادہ قلم سے ترتیب دی جاتی تھی، جس کو فن خوش نویسی کہا جاتا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ صحافت کا بھاری بھرکم وزن ایسے ہی لوگ بغیرکسی چون و چرا کے اپنے کندھوں پر سجائے رکھتے تھے۔

یہ اس دورکی باتیں ہیں جب کمپیوٹر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ بٹر پیپر پر خوش نویسی گوکہ ایک مشکل ٹاسک ہواکرتا تھا۔ ہمارے معاشرہ کی بے حسی کہہ لیجیے کہ ہمارے ہاں بالخصوص اردوکی خوش نویسی کی بڑی بڑی نامور شخصیات موجود ہیں جنھوں نے اس شعبہ میں باکمال کرداراداکیا ہے۔

صد قابل افسوس اوررنج وملال ہے یہ امرکہ ان کی پذیرائی یا بازگشت عوام الناس وخاص کجا کسی بھی ادبی، سماجی اور صحافتی فورم میں نہ کبھی سنی گئی نہ ہی نظرآئی۔ گوکہ یہ انتھک محنت پرمشتمل وقت طلب کام ضرورہے، مگرکام کا جنون وہ بھی ایک قومی جذبہ کے ساتھ جو یقیناٰ ان میں انفرادیت کی روح بیدارکرنے کا موجب بنتی ہے۔

حال ہی میں اردوکتابت کے اہم شعبہ کے بے تاج بادشاہ بزرگوار سید تصویب حسین نقوی 80  سال کی عمر میں ہم سب سے جدا ہوگئے۔کتابت کی دنیا کا یہ ایسا شاہکار تھا جس کا خلا پر ہونے میںشاید طویل عرصہ لگ جائے۔

آخری وقت تک بھی انھوں نے عشق کتابت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میرا ان سے گوکہ قریبی تعلق رہا شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت محبت کرنے والے انسان تھے ،جب بھی کہیں ملاقات ہوتی بڑی خندہ پیشانی اور مشفقانہ انداز میں پیش آتے۔گفتگو مختصر پیرائے میں کرنے کے عادی تھے۔ قیام پاکستان ہی سے ایک مشہور قومی اخبار سے وابستہ رہے۔ ہم بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ مولا پنجتن پاک کے صدقے ان کے تمام ناکردہ گناہوں اور خطاؤںکومعاف فرما اور ان کے تمام اہل خانہ ، قرابت داروں اور جملہ متعلقین کو ان کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ (آمین)

میں اکثر مشاہدہ سے یہ بات کہنے میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرہ کی بے حسی کہیے کہ اس کی زندگی میں اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے ان کی رحلت کے بعد ان کی شخصیت نگاری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ مرنے کے بعد لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ جانے والے شخص کی کام کے حوالہ سے کیا اہمیت تھی، اس مشہورضرب المثل کے ساتھ کہ ’’ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت‘‘ اب تو محض کف افسوس ورنج وملال کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جانے والا تو اپنے وقت مقررہ پر اس دنیا سے پردہ کرگیا۔

کئی دہائیوں کے بعد 2020 کا عیسوی سال جس کو ہماری قبیلہ نما عوام نے اندھا دھند فائرنگ اور خطرناک آتش بازی سے استقبال کیا، وہ سال دنیا کے انسانوں کے لیے مشکل گھڑی کا سال ثابت ہوا۔ دسمبر اس سال کا اختتامی مہینہ ہے، روزانہ کسی نہ کسی کے بیماریوں اور انتقال کی خبر سننا نصیب ہورہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب خوشیوں کا تناسب کم اور غم اوردکھوں کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے۔

ایک ہم ہیں راہ راست پر نہیں آپا رہے۔ جیسے جیسے سال اپنے اختتامی مرحلہ میں داخل ہو رہا ہے، اموات کی شرح میں اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔ سونے پر سہاگہ ،کووڈ 19کی شدید لہر نے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کیا بلکہ ملک کی معیشت پر بھی منفی نقوش چھوڑے۔ اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔