’’طالوت اور جالوت ‘‘

عبد القادر شیخ  اتوار 7 فروری 2021
حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت سے قبل اس قوم کا حال حضرت یوسف ؑ کے حالات و واقعات میں گزر چکا ہے۔ فوٹو : فائل

حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت سے قبل اس قوم کا حال حضرت یوسف ؑ کے حالات و واقعات میں گزر چکا ہے۔ فوٹو : فائل

یہ کوئی اب سے تین ہزار سال قبل کی بات ہے کہ مصروفلسطین کے درمیان بحرروم پر عمالقہ آباد تھے۔

یہ بڑی بہادر اور جنگجو قوم تھی۔ حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت سے قبل اس قوم کا حال حضرت یوسف ؑ کے حالات و واقعات میں گزر چکا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس قوم میں ایک ظالم و جابر حکم راں گزرا ہے جس کا نام جالوت تھا۔ وہ جسمانی طور پر نہایت طاقت ور تھا۔

اسی نے قوم یہود کو دعوت مبازرت دی تھی۔ اس نے قوم بنی اسرائیل کو مغلوب کرکے اپنا قیدی بنالیا تھا اور ان کی آبادیوں پر بھی اپنا ناجائز تسلط جما لیا تھا۔ یہ ان کے نامی گرامی سرداروں کو یرغمال بنا کر لے گیا تھا اور پھر انہیں اپنی قلم رو میں قید میں ڈال دیا تھا، جب کہ بقیہ بچی کھچی قوم پر مظالم روا رکھے اور ان پر خراج مقرر کیا۔ حضرت شموئیل ؑ (سیموئیل) کے دورِنبوت میں بھی عمالقہ کی بربریت اور ظالمانہ کارروائیاں جاری رہیں۔

یہاں تک کہ بنی اسرائیل (قوم یہود) ان سے عاجز آگئے اور اپنے نبی حضرت شموئیل ؑ سے درخواست کرنے لگے کہ وہ ہم پر ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم ان ظالموں کا مقابلہ کریں گے اور جہاد کے ذریعے دشمنوں کی لائی ہوئی اذیتوں کا قلع قمع کردیں گے۔ اس واقعے کا ذکر قرآن حکیم میں تفصیل سے موجود ہے۔ ترجمہ:’’کیا تم کو بنی اسرائیل کی اس جماعت کا حال معلوم نہیں جس نے موسٰی کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجیے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں، پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہونے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔ انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہیں کریں گے، ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑ ے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے لوگوں کے سب اپنے فیصلوں سے بدل گئے اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ آیت 246)

قرآن حکیم کی یہ آیۂ مبارکہ توریت کی اس روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ صرف اتنا اضافہ ہے کہ اس میں بادشاہت طلب کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ لکھا ہے کہ ’’اور ایسا ہوا کہ جب سیموئیل بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو مقرر کیا کہ اسرائیل کی عدالت (قاضی) کریں اس کے پہلوٹے کا نام یو ایل تھا اور دوسرے بیٹے کا نام ابیاء تھا وہ دونوں بیرسبع میں قاضی مقرر تھے اور عدالت میں طرف داری کرکے انصاف کی پیروی کرتے اور رشوت لیتے کچھ بزرگ جمع ہوکے راستے میں سیموئیل ؑ کے پاس آئے اور اسے کہا دیکھ تو بوڑھا ہوا اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلے اب کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر جو ہم پر حکومت کیا کرے جیسا کہ سب قوموں میں ہے۔‘‘ (سیموئیل باب8، آیات6تا24)

قوم کے اس مطالبے پر حضرت شموئیل نے ان سے اتمام حجت کرلیا تو اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کیا حق تعالیٰ نے انہیں مطلع فرمایا کہ بنی اسرائیل کی درخواست منظور ہوئی اور ہم نے طالوت کو جو علمی اور جسمانی دونوں لحاظ سے تم میں نمایاں ہے تم پر بادشاہ مقرر کردیا ہے۔

بنی اسرائیل نے جب یہ سنا تو منہ بنانے لگے اور ناگواری سے کہنے لگے یہ غریب شخص ہے اس کے پاس مال دولت کچھ نہیں ہے یہ کیسے ہمارا بادشاہ بن سکتا ہے اور اصل میں بادشاہت کے لائق تو ہم ہی ہیں بس ہم میں سے کسی کو بادشاہ بنادیجیے اس بات کی تصدیق قرآن حکیم نے بھی کی ہے۔

ترجمہ ’’ایسا ہوا کہ ان کے نبی نے کہا اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو مقرر کردیا ہے جب انہوں نے یہ سنا تو (اطاعت و فرماں برداری کی بجائے) کہنے لگے کہ وہ ہم پر کیسے حکم راں ہوسکتا ہے اس سے زیادہ کہیں حکم رانوں کے حق دار تو ہم ہیں علاوہ بریں اس کو مال و دولت کی وسعت بھی حاصل نہیں ہے ۔ نبی نے کہا حکم راں کا جو معیار تم نے مقرر کرلیا ہے وہ غلط ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حکم رانی کی قابلیت اور استعداد میں تم پر اس کو برگزیدہ اور فائق کیا ہے اور علم کی فراوانی اور جسم کی طاقت دونوں میں اس کو وسعت فرمائی ہے (اس کا اہل سمجھ کر) اپنی زمین کی حکم رانی بخش دیتا ہے اور وہ اپنے تصرف وقدرت میں بڑی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (سورہ بقرہ آیت247)

ثعلبی نے اپنی تصنیف میں طالوت کا نسب نامہ اس طرح لکھا ہے ساول بن قیش بن افیل بن صاروبن تحورت بن افیح بن انیس بن یامین بن یعقوب (البدایہ والنہایہ جلد2) امام ابن قتیبہ اپنی تصنیف کتاب المعارف میں طالوت کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’وہب کے قول کی بنیاد پروہ بن یامین کی ذریت میں سے تھے جو حضرت یوسف ؑ کے ماں جائے بھائی کی نسل ہیں۔‘‘ ابتدا میں وہ نہایت تنگ دست اور اونٹ چرایا کرتے تھے اپنے گاؤں سے دو گم شدہ گدھوں کی جستجو میں نکلے اور شموئیل کے ہاں جا کر ٹھہر گئے۔ انہیں دیکھ کر شموئیل نے اپنی قوم کو خبر دی کہ طالوت تمہارا بادشاہ ہے اور یہ بن یامین کی نسل سے ہے۔

شموئیل کے ہم قوم لوگوں نے اس بات کو سن کر کہا، آپ کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اس نسل سے کوئی تاج دار (بادشاہ ) نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی نبی گزرا ہے۔ شموئیل نے جواب دیا۔ اس بات کو تم زیادہ جانتے ہو یا تمہارا خدا۔ کیا یہ بات تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ نے جس وقت اس کو تمہاری طرف بھیجا تھا تو وہ اس کے نسب سے آگاہ تھا؟ قرآن حکیم نے اس بادشاہ کو طالوت کہہ کر پکار ا ہے جب کہ دیگر مذہبی کتب میں یہ نام ساول لکھا ہے۔

قوم یہود بڑی ضدی اور ہٹ دھرم کے طور پر سامنے آئی۔ اس قوم نے حضرت موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کو بھی اپنی ہٹ دھرمیوں اور نافرمانیوں کی بناء پر عاجز کردیا تھا اور ان دونوں برادران کے بعد بھی جتنے انبیائے کرام (بشمول) حضرت عیسٰی ؑ تک آئے سب کی نافرمانی کی جس کی تفصیلات مختلف مضامین میں آتی رہی ہیں۔

محولہ بالا آیات سے بھی ان کی نافرمانیوں کا اظہار ہورہا ہے۔ حضرت شموئیل ؑ جو اس وقت اسرائیلی علاقوں پر منصب نبوت پر فائز تھے ان کے سامنے بھی اس قوم نے حسب سابق یہ مطالبہ رکھ دیا کہ اگر طالوت حق تعالیٰ کا مقرر کردہ بادشاہ ہے تو اس کے ثبوت میں اللہ کی کوئی نشانی (معجزہ) پیش کرو جیسا کہ ماضی میں ان کا ہر نبی کے ساتھ یہی مطالبہ رہا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ اتمام حجت کے طور پر اللہ کے حکم سے نبی سے معجزہ صادر ہوجاتا ہے اور اس کے صادر ہونے کے بعد بھی وہ قوم ایمان نہ لائے تو پھر وہ اللہ کے شدید عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ماضی میں دیکھیے تو حضرت موسٰی ؑ کی ذات مبارک سے بے انتہا معجزات کا صدور رہا مگر پھر بھی یہ قوم ٹس سے مس نہ ہوتی اور فرعون کی طرح اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ ثابت کرتی رہی اور عذاب میں گرفتار ہوتی رہی۔

حضرت شموئیل ؑ سے بھی قوم نے ایسا ہی ایک مطالبہ رکھا تھا جس پر آپؑ نے فرمایا کہ اگر تمہیں خدا کے فیصلے کی تصدیق مطلوب ومقصود ہے تو تمہیں وہ بھی عطا کردیا جائے گا اور وہ یہ کہ جو متبرک صندوق

جس میں توریت اور حضرت موسٰی و ہارون کے نوادرات محفوظ ہیں، وہ طالوت کی بدولت تمہارے ہاتھوں میں آجائے گا۔ اس ضمن میں قرآن حکیم میں آیا ہے ۔ ترجمہ:’’ان کے نبی نے ان سے کہا اس کی بادشاہت کی ظاہری دل جمعی ہے اور آل موسٰی اور آل ہارون کا ترکہ ہے فرشتے اسے اٹھا کر لائیںگے، یقیناً یہ تمہارے لیے کھلی دلیل ہے۔‘‘

(سورہ بقرہ آیت 248) حضرت شموئیل کی تسلی سے قوم یہود کو کچھ اطمینان ہوا اور وہ طالوت کی قیادت میں جالوت سے جنگ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ارشاد باری ہے ترجمہ ’’جب طالوت لشکروں کو لے کر نکلا تو کہا سنو! اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ (شدت تشنہ لبی سے) ایک چلو بھرے (پی لے) لیکن سوائے چند کے ان میں سے سب نے پیا۔‘‘ (بقرہ آیت249) مفسرین اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان واقع ہے اور پانی نہ پینے والوں کی تعداد 313 تھی جو اصحاب بدر کی بھی تعداد ہے۔

جب یہ لشکر نہر پار کر گیا تو طالوت اور اسرائیل کے لوگ جمع ہوکر ایلہ کی وادی میں خیمہ زن ہوئے جبکہ جالوت جس کا توریت میں جاتی جو لیت نام ہے۔ دونوں افواج آمنے سامنے پہاڑیوں پر تعینات تھیں۔ درمیان

میں وادی تھی توریت کی ایک روایت کے مطابق جالوت پہلوان تھا، اس کا قد6 ہاتھ اور ایک بالشت تھا اس کے سر پر پیتل کا خود اور پیتل ہی کی زرہ تھی جس کا وزن پانچ ہزار مثقال تھا۔ اس کی ٹانگوں پر پیتل ہی

کے دو ساق پوش تھے، اس کے دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی برچھی تھی، بھالا ایسا تھا جیسے جولاہے کا شہتیر جس کا وزن چھے سو مثقال تھا جو لوہے کا تھا۔

جالوت کے لشکر کو دیکھ کر قوم یہود سہم گئی۔ وہ آپس میں کہنے لگے آج تو ہم میں لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ ان کی پستی دیکھ کر ان 313 خداپرستوں نے کہا بعض اوقات چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غلبہ کی

قدرت نہیں رکھتیں۔ اللہ پر یقین رکھنے والوں کے اس جذبۂ جہاد نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی اور جالوت اور اس کے لشکر سے باقاعدہ جنگ ہونے سے قبل انہوں نے رب کریم سے دعا مانگی جو ان قرآنی

الفاظ میں تھی ترجمہ،’’اے پروردگار! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔‘‘ (دیکھیے سورہ بقرہ آیات250-251) تاریخ داں اس جنگ کا مقام غور کی وادی بھی لکھتے ہیں جو زیریں اردن

کی ایک وادی ہے اور یہ اس کا حالیہ تجویز کردہ نام ہوسکتا ہے۔ جنگ شروع ہوئی تو جالوت سب سے پہلے مقابلے کے لیے نکلا اور پہلے ہی حملے میں مارا گیا جالوتیوں کو شکست ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ طالوت اور اس کا لشکر سرخ رو ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔