پی ڈی ایم کے خاتمے کا آغاز، اے این پی الگ ہوگئی

شاہد حمید  بدھ 7 اپريل 2021
صف اول کی ساری کی ساری قیادت ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو بھرپور انداز سے جواب دے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

صف اول کی ساری کی ساری قیادت ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو بھرپور انداز سے جواب دے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

 پشاور: پی ڈی ایم کا معاملہ یہ ہے کہ اتحاد کے سربراہ مولانافضل الرحمن علالت کے باعث گھر تک محدود ہیں جبکہ سینٹ میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے طور پر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے پر اتفاق کیا۔

اس طرح کے فیصلے اتحادوں کے سربراہی اجلاسوں میں کیے جاتے ہیں لیکن پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کاانعقادکیے بغیرہی جو انداز اپنایاگیا اور دو سیاسی پارٹیوں کو جس طریقہ سے شوکاز نوٹس جاری کرنے پر اتفاق کیاگیا اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پیپلزپارٹی اور اے این پی ،پی ڈی ایم کی کوئی ذیلی تنظیمیں ہوں جو دیگر پارٹیوں کے حکم پر چلنے کی پابند ہیں ،اگر دیگر سیاسی جماعتوں نے ایسا کوئی رویہ اپنانا بھی تھا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کا انتظار کیاجاتا اور اجلاس ہی میں ایسے معاملات زیر بحث لائے جاتے۔

اس رویئے کا ردعمل متوقع تھا،لہذا اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کردیا یہ اعلان پشاور میں پارٹی رہنما امیر حید  ہوتی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صف اول کی ساری کی ساری قیادت ن لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو بھرپور انداز سے جواب دے رہی ہے۔

اے این پی کی جانب سے خاموشی کی وجہ غالبًا پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کی علالت اور سیاسی امور سے کنارہ کشی رہی جس کی وجہ سے نہ تو پارٹی کا تھنک ٹینک اجلاس منعقد ہو پا رہا تھا اور نہ ہی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی نشست ہو پائی ہے۔ امیر حید ہوتی نے اپنی پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کرنے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم اتحاد کو کچھ جماعتیں اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے شوکاز نوٹس جاری کیا دراصل انہوں نے خود ہی پی ڈی ایم کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی بھی منتظر تھیں۔ امکان تو ہے کہ ماہ رمضان شروع ہونے سے قبل پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوجس میں تمام ایشوز زیر بحث لائے جائیں البتہ بعض حلقے اس بات کا بھی امکان ظاہر کررہے ہیں کہ چونکہ ماہ رمضان کی وجہ سے ویسے بھی ایک ماہ کے لیے سیاسی سرگرمیاں تقریباًمعطل ہی رہیں گی اس لیے ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی اب عید کے بعد ہی منعقد ہو۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ ایک مرتبہ ایسی تحاریک میں جب رکاوٹ آتی ہے تو دوبارہ ٹیمپو بننے میں اچھا خاصا وقت لگتاہے اور بعض اوقات یہ رکاوٹیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ تحریک کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے اس لیے اب سب کی نظریں پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتوں پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں۔

ان حالات میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی ایم فیم رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں بل جمع کرایا ہے جس میں تجویز کیاگیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرتے ہوئے صرف پختونخوا رکھا جائے ۔ایم این اے محسن داوڑ کا استدلال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کا نام پختونوں کی چوائس نہیں،ان کی چوائس تو پختونخوا ہے لیکن حالات کے مطابق اس کے ساتھ لفظ خیبرکا سابقہ لگا دیاگیا جس کی وجہ سے صورت حال اب یہ بنی ہے کہ کوئی صوبہ کا نام کے پی پکارتا ہے تو کوئی کے پی کے اور اس کا اصل نام غائب ہوکر رہ گیا ہے اس لیے صوبہ کا نام پختونخوا رکھاجائے۔

محسن داوڑ کی جانب سے پیش کردہ یہ بل کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے اور جب کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں آئے گی تب ہی اس پر بات آگے بڑھے گی۔ اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے تو عندیہ دے دیا ہے کہ جب کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں آئے گی تو اے این پی اس کی حمایت کرے گی کیونکہ اے این پی کی اپنی چوائس بھی پختونخوا ہی ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کو متفقہ دستاویز بنانے کی غرض سے ہم نے میاں نواز شریف کی تجویز پر اس کے ساتھ لفظ خیبر کا اضافہ تسلیم کرلیا۔

اب اگر ایسی کوئی صورت حال بنتی ہے کہ صوبہ کو صرف پختونخوا کا نام ملتا ہے تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اس تنازعہ سے بچنے کے موڈ میں ہے اسی لیے وہ اس ایشومیں پڑنے کے بجائے دیگر معاملات پر فوکس رکھنا چاہتی ہے ،حکومتی صفوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ چونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ میں انضمام کے بعد خیبرکا علاقہ بھی اب صوبہ کا حصہ ہے اس لیے صوبہ کے نام کا حصہ خیبر قبائلی اضلاع کی نمائندگی کر رہا ہے اور یہ تنازعہ اگر پیدا کرنا ہی تھا تو اسی وقت سٹینڈ لیا جاتا جب صوبہ کا نام تبدیل کیا جا رہا تھا اور صوبائی حکومت کی یہ پالیسی اس لیے ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر صوبہ ہزارہ کا معاملہ نہ گرم ہوجائے ،گو کہ اب اس تحریک کے روح رواں بابا حیدر زمان اس دنیا میں موجود نہیں۔

اس کے باوجود سب کو 2010 یاد ہے جب صوبہ کے نام کی تبدیلی کے معاملہ پر ہزارہ میں گیارہ ،بارہ افراد موت کی وادی میں چلے گئے تھے اور جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ اپنے پیچھے گہرے نشان بھی چھوڑ گئی تھی۔ صوبائی حکومت کسی بھی طور نہیں چاہے گی کہ اس کے لیے اس طرح کا کوئی ایشو پیدا ہو۔

یہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب صوبہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے معاملات لائم لائٹ میں ہیں اور پھر یہ اس حکومت کا تیسرا سال ہے اور صوبہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے جو وعدے کیے گئے تھے ،وہاں کے لوگ اب ان وعدوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں اور اگر اس حوالے سے ماحول گرم ہوتاہے تو ایسے میں لازمی طور پر صوبہ ہزارہ کا معاملہ بھی اٹھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔