دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات

پاکستان کیلیے خوش آیندہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اورانٹیلی جنس ایجنسیاں دشمن عناصرکی حکمت عملی سے پوری طرح آگاہ ہیں۔


Editorial August 14, 2021
اہل پاکستان کے لیے خوش آیند ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں امن دشمن عناصر کی حکمت عملی سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ داسو دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہوئی، را اور این ڈی ایس ملوث ہیں، حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی۔

خودکش بمبار بھی افغانی، گاڑی اسمگل ہو کر آئی، کالعدم تحریک طالبان کا ہینڈلر بھی وہیں بیٹھا ہے، 100 سے 120 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ تحقیقات پاکستان نے مکمل کر لی ہیں، چین نے بھی تعاون کیا اور پاکستانی تحقیقات پر اطمینان کا اظہار کیا، اس سلسلے میں پاکستان باضابطہ طورپر افغانستان سے رابطہ کررہا ہے ۔

بلاشبہ پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے حوالے سے دو ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کا کردار مختلف اوقات میں افسوسناک رہا ہے،اسی جانب ہمارے وزیرخارجہ نے واضح،دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے حقائق وشواہد کی بنیاد پرحقیقی صورتحال کی نشاندہی کی ہے۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے کہ کچھ ایسی بین الاقوامی طاقتیں بھی ہیں جو براہ راست نہ سہی بالواسطہ پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے میں ملوث رہی ہیں۔اس وقت افغانستان، طالبان اور حکومت کے درمیان عدم سمجھوتے کی وجہ سے بدترین صورتحال میں داخل ہوچکا ہے۔ افغانستان میں خونریزی اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیے امریکا نے عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا، جو کہ ایک سنگین غلطی ثابت ہوئی ہے۔

موجودہ منظرنامے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت نے افغانستان میں اپنا سیاسی و انتظامی اثرورسوخ بڑھا کر جو کام پہلی ترجیح کے طور پر کیا وہ پاکستان میں بدامنی پھیلانا تھا۔بھارت کے چار قونصل خانے ایسے افراد کو تربیت دیتے ،مالی مدد اور لانچنگ سہولیات فراہم کرتے رہے ہیں۔بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔

ایف اے ٹی ایف میں اپنی طاقتور حیثیت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھنے کے لیے کوشش کی۔اس کا اعتراف بھارتی وزیر خارجہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کے سامنے کر چکے ہیں۔حال ہی میں بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالی ہے۔یہ مدت اگرچہ ایک ماہ کے لیے ہے لیکن بھارت اس ایک مہینے کے اندر پاکستان اور کشمیر کے بارے میں عالمی ادارے کے تاریخی ریکارڈ کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چند روز قبل سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغان مندوب نے بھارت کے اشارے پر پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات لگائے۔ پاکستان نے ان الزامات کا جواب دینے کی اجازت چاہی تو یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔

بھارت کی حکومت آر ایس ایس اور فاشسٹ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، پاکستان ہمیشہ امن کے لیے کوشاں رہا ہے مگر بھارت کی ہندوتوا سوچ آڑے آ رہی ہے، بھارتی وزیرخارجہ نے قبول کیا کہ بھارت نے ایف اے ٹی ایف کو سیاسی عزائم کے لیے استعمال کیا۔طالبان کی غلطی ہوگی اگر وہ بھارت کی چالوں میں آئے کیونکہ بھارت اپنے پڑوسیوں کے خلاف طالبان کو استعمال کرنے کے لیے ایک بہت بڑا منصوبہ تشکیل دے چکا ہے۔

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جانب سے سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کالعدم جماعت ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرسکتی ہے۔

مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں پناہ لیے ہوئے کارندے سرحد پار سے پاکستان پر حملے کرسکتے ہیں۔

رپورٹ کے مندرجات سے پاکستان کے اس موقف کی بھی تائید ہوتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے کارندوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے اور انھیں پڑوسی ملک بھارت کی بھی آشیرباد حاصل ہے۔پاکستان ہمیشہ بھارت کی اس جارحیت کے ثبوت عالمی قیادت کو دیتا آیا ہے اور عالمی برادری سے ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

نائن الیون کے واقعات رونما ہونے کے بعد اکیس برس پہلے امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بطور فرنٹ لائن اسٹیٹ بھاری قیمت ادا کی ۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے اپنی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان کے ساتھ ساتھ 70ہزار سے زائد فوجیوں اور عام شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تعلق افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورت حال سے بنتا ہے۔ جو کھیل امریکا'بھارت اور افغان حکومت بین الاقوامی سازشوں کے ذریعے رچا رہے ہیں اس کو تخریبی سرگرمیوں کی شکل میں سی پیک منصوبوں والے علاقوں تک پھیلایا جا رہا ہے۔دہشت گردوں کی حکمت عملی میں نیا رجحان بڑے اور نسبتاً پرامن شہروں کو نشانہ بنانا شامل ہو چکا ہے۔

افغانستان بارڈر کے اس طرف سے جو دہشت گردی پاکستان کے خلاف ہو رہی ہے،اس میں معصوم اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بیرون ملک عناصر بلوچستان کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، اس لیے وہ تخریبی کارروائیاں کررہے ہیں ۔

پاکستان علاقائی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا حامی ہے۔اس سلسلے میں چین'روس'ازبکستان' ایران اور ترکی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں۔چین کے تعاون سے پاکستان نے خطے کی ترقی کا نیا ماڈل اختیار کیا ہے۔اس ماڈل کے تحت خطے کے تمام ممالک کو شاہراہوں'ریل رابطوں اور بندرگاہوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا جا رہا ہے۔

خطے کا داخلی استحکام اور ہمسایہ ممالک کے مابین تجارتی تعاون بڑھنے سے کئی عالمی طاقتوں کے کاروباری مفادات متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا پاکستان کے خلاف سازش کرنا سمجھ میں آتا ہے۔

حالیہ واقعات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں ،یہ پیٹرن ظاہر کرتا ہے کہ سیکیورٹی ادارے امن دشمن طاقتوں کے مذموم منصوبوں کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا کر انھیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سازش کے ذریعے دہشت گرد عوام میں یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ جو سیکیورٹی ادارے اور اہلکار اپنا تحفظ نہیں کر پاتے وہ نہتے عوام کی حفاظت کیسے کر سکیں گے۔ دہشت گردی کے واقعات کا ایک پیٹرن علاقائی ہے۔

سبی' گوادر' وزیرستان' کوئٹہ'تربت وغیرہ ایسے مقامات ہیں جہاں تواتر سے دہشت گردی سے متعلق واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ انٹیلی جنس نظام کو مزید چوکس بنایا جائے'سیف سٹی کیمرے درست رکھے جائیں اور کسی جگہ گڑ بڑ کی اطلاع پر فوری کارروائی کی جائے۔

یہ امر اہل پاکستان کے لیے خوش آیند ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں امن دشمن عناصر کی حکمت عملی سے پوری طرح آگاہ ہیں اسی لیے دہشت گردوں کو بڑی کارروائی سے قبل گرفت میں لیا جارہا ہے ، تاہم یہ صورت حال فکر مندی کا باعث ہے۔کہیں بھی اور کسی مقام پر ذرا سی چوک سے ملک دشمن عناصر کو کارروائی کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 

مقبول خبریں