دو بے مثال مسلمان عورتیں

زاہدہ حنا  بدھ 5 جنوری 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دسمبر کے مہینے میں کتنے غم آتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا غم جن کی ذات سے ہم لوگوں نے کیسی کیسی امیدیں باندھی تھیں۔ ایک نادار قوم امیدیں باندھتی ہے اپنی آیندہ نسل کے لیے۔ لیکن ایک ٹولہ سب کروڑوں کی آرزو چھین کرلے گیا اور فاطمہ مرینسی ساری مسلم دنیا کی ایک بے مثال دانشور جو صدیوں میں پیدا ہوئی تھی لیکن موت اسے پبلک جھپکتے اپنے ساتھ لے گئی۔ اس نے پاکستان اور مسلم عورت کی حکمرانی کا مقدمہ کس پرزور انداز میں لڑا تھا لیکن موت نے اسے مہلت نہ دی۔

30 نومبر 2015 کو ہمارے درمیان سے وہ ہستی اٹھ گئی جس کا بیسویں صدی کی مسلم دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ فاطمہ مرنیسی رخصت ہوئیں اور ہم میں سے بیشتر کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ ہم کس جوہر قابل سے محروم ہوگئے۔ برسوں پہلے جب میں ان کی کتاب’ ’شہر زاد گوزویسٹ‘‘ کا ترجمہ کررہی تھی، تو مجھے یقین تھا کہ آیندہ برسوں میں ان سے یقینا ملاقات ہوگی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ فاطمہ مرنیسی کا پاکستان کے سیاسی معاملات سے بھی تعلق تھا ۔16 نومبر 1988 کے انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنیں تو قدامت پسندوں نے اسے قطعاً غیر اسلامی قراردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی صدی ہجری سے آج تک مسلم دنیا میں کوئی عورت حکمران نہیں بنی تو پھر بے نظیر کیسے وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ فاطمہ نے بے نظیر کے مخالفین کو خوب خوب جواب دیا اور ایک ایسی کتاب لکھی جس کا نام ہی انھوں نے ’’مسلم دنیا کی فراموش کردہ ملکائیں‘‘ رکھا۔

اس میں انھوں نے سلطانہ رضیہ، شجرۃ الدر، ترکان خاتون، ملکہ نور العالم اور متعدد ان عورتوں کا ذکر کیا ہے جو تخت پر بیٹھیں، جنھوں نے سیاسی زندگی گزاری، میدان جنگ میں اپنی فوجوں کی کمان کی اور جن میں سے بیشترزہر دے کر ماری گئیں یا زہریلے خنجر سے قتل کی گئیں ،بے نظیر بھٹو کے نصیب میں سیسے کی گولی آئی۔ آج پاکستان میں لاکھوں، کروڑوں لوگ بے نظیرکا ماتم کریں گے لیکن جی چاہتا ہے کہ میں فاطمہ کا غم بھی مناؤں۔

فاطمہ مرنیسی 1940 میں مراکش کے شہر فیض میں پیدا ہوئیں اور 30 نومبر کو جب اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو وہ ایک اہم مسلم دانشور اور مورخ کی شہرت رکھتی تھیں۔ کئی برس پہلے ’’قاہرہ ٹائمز‘‘ نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’وہ ہم عربوں کے لیے موجودہ دور کی شہرزاد ہے اور علم و ادب کی اقلیم پر کسی داستانی ملکہ کی طرح حکومت کرتی ہے ۔ ‘‘

فاطمہ کو تحقیق اور تخلیق کو آمیز اور آمیخت کرنے کا ہنر آتا تھا۔ وہ مراکش کی اس خوش نصیب نسل سے تعلق رکھتی تھیں جو سیاسی ہیجان اور احتجاج کے دور میں پیدا ہوئی۔ ان کی ماں، نانیوں اور دادیوں کے لیے گھر سے قدم باہر نکالنا ممکن نہ تھا لیکن فاطمہ نے پہلے فیض پھر رباط میں تعلیم حاصل کی۔ اُنکی ذہانت اُن کے لیے بند دروازے کھولتی چلی گئی۔

انھوں نے فرانس کی سوربون یونیورسٹی سے علم سیاسیات اور پھر امریکا کی برانڈیز یونیوسٹی سے سوشیولوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ ان کے علمی کام پر انھیں پرنس آف آسٹریا ایوارڈ اور Susan Sonutag ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ اراسمس پرائز بھی ان کے حصے میں آیا۔ ان کی پہلی کتاب Beyond the Veil ’ ’حجاب سے آگے‘‘ 1975 میں شایع ہوئی۔ مسلم عورتوں بہ طور خاص عرب دنیا کی مسلمان عورتوں کے بارے میں ان کی یہ کتاب ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔

گزشتہ 35 برسوں میں انھوں نے ’’دنیائے اسلام کی فراموش کردہ ملکائیں‘‘ ’’ اسلام اور جمہوریت : جدید دنیا کا خوف، ’ حدود شکنی کے خواب‘ ’باغی عورتیں اور مسلمان حافظہ‘ اور’’ شہرزاد مغرب میں‘‘ تحریر کیں۔ وہ ایک ایسے دور میں اپنی خلاقی اور باغیانہ خیالات کے ساتھ عرب دنیا میں نمودار ہوئیں جب ساری دنیا مسلمانوں اور بہ طور خاص عربوں کی طرف متوجہ تھی۔ انھوں نے عربی، فرانسیسی اور انگریزی کو ذریعہ اظہار بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار عرب دنیا کے اہم ترین دانشوروں میں ہونے لگا۔

فاطمہ نے درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کی شاہ کار ان کتابوں نے عرب اور مسلم دنیا سے زیادہ مغرب کو اپنی طرف متوجہ کیا، وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں لیکچر کے لیے بلائی جاتیں۔ وارث میر صاحب نے اپنی کتاب ’’ کیا عورت آدھی ہے؟‘‘ میں ایک ایسی ہی کانفرنس کا ذکر کیا ہے جو ملائیشیا میں ہورہی تھی اور جس میں ایک پاکستانی صاحب کی فاطمہ مرنیسی سے تلخ بحث ہوگئی تھی۔ فاطمہ دو ٹوک بات کرنے والی دانشور تھیں اور عرب دنیا میں جمہوریت کے نہ ہونے کو مسلمان عورتوں پر عائد پابندیوں سے جوڑ کر دیکھتی تھیں۔ نیو یارک ٹائمز نے ان کی رخصت پر تعزیتی نوٹ لکھا جس میں انھیں مسلم نسائیت کی بنیاد گزار قرار دیا ۔

وہ مراکش کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں اور ان کی ابتدائی زندگی اسی حویلی میں گزری جو وہاں رہنے والی عورتوں کے لیے ایک زندان تھی۔ 1993 میں ایک ریڈیو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ میری ماں اس گھر کو ایک قید خانہ کہتی تھیں اور اس سے نفرت کرتی تھیں۔ وہ ریڈیو قاہرہ سنتیں اور اپنی اس آزادی سے لطف اٹھاتیں۔ فاطمہ نے اپنی دادی یا سمینہ کا ذکر، شہرزاد مغرب میں، اور اپنی یادداشتوں، حدود شکنی کے خواب، میں بہت تفصیل سے کیا ہے۔ ان یادوں میں ان کی دادی یا سمینہ کی بنیادی اہمیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ان کی ہیروہیں تو غلط نہ ہوگا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ یاسمینہ میری دادی جونا خواندہ تھیں، ان کا کہنا تھا کہ سفر وسیلہ ظفر ہے، سیکھنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں، یہ تمہیں مختار بناتا ہے۔ وہ ایک حرم میں رہتی تھیں، ایک روایتی گھر جسکے دروازوں پر تالے پڑے رہتے تھے اور عورتیں انھیں کھول نہیں سکتی تھیں۔دادی یا سمینہ کے لیے حرم ایک ظالمانہ ادارہ تھا، جس نے ان کے حقوق کو بے طرح غصب کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ اللہ کے تخلیق کیے ہوئے اس خوبصورت اور پیچیدہ سیارے پر سفر کرنے اور اسے دریافت کرنے کے حق سے وہ محروم کردی گئی تھیں۔‘‘

فاطمہ نے لکھا کہ میرا بچپن دادی یا سمینہ سے یہ سنتے ہوئے گزرا کہ ایک عورت کے لیے یہ عام سی بات ہے کہ سمندروں یا دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے اس پر لرزہ طاری ہوجائے اور پھر اس پر یہ اضافہ بھی کرتیں کہ اس کے برعکس اگر کوئی عورت اپنے بال و پر استعمال نہ کرے تو یہ بات اس کے لیے صدمے کا سبب بنتی ہے۔دادی یا سمینہ کا جب انتقال ہوا تو میں تیرہ برس کی تھی۔

مجھے ان کی موت پر گریہ و ماتم کرنا چاہیے تھا لیکن میری آنکھ سے آنسونہ ٹپکا۔ انھوں نے بستر مرگ پر مجھ سے کہا تھا ’’اپنی دادی کو یاد کرنے کا بہترین انداز یہ ہے کہ تم شہرزاد کی میری پسندیدہ کہانی سنانے کی روایت کو زندہ رکھنا۔وہی پروں کے لباس والی عورت کی کہانی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے الف لیلہ کی ہیروئن شہر زاد کی کہی ہوئی یہ کہانی ازبر کرلی۔ اس کہانی کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک عورت کو اپنی زندگی خانہ بدوشوں کی طرح گزارنی چاہیے، اسے ہر لمحہ چوکنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے خواہ اس سے محبت ہی کیوں نہ کی جارہی ہو۔ یہ داستانیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ عشق تمہیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور ایک زنداں بن جاتا ہے۔

فاطمہ کی کئی کتابوں میں عورتیں بحث کا مرکز ہیں ، وہ کہتی ہیں کہ نہایت جوشیلے انتہا پسند بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورتیں کم تر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انتہا پسندی کے باوجود کئی مسلمان ملکوں میں عورتیں سیاسی رہنماؤں کے طور پر ابھری ہیں۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو، ترکی میں تانسو شلر اور انڈونیشیا میں میگاوتی۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں اور پیشہ ورانہ میدان میں متعدد ایسے شعبے جنھیں مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا ،مثلاً انجینئرنگ ان میں مسلمان عورتیں جو ش و خروش سے داخل ہوئی ہیں حالانکہ انھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ابھی بہت حال میں میسر آیا ہے۔

1990 کی دہائی میں یونیورسٹیوں یا ان کے مساوی دوسرے اداروں میں پڑھانے والی مصری خواتین کا تناسب فرانس اور کینیڈا سے زیادہ تھا۔ اسی طرح ترکی اور شام میں انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لینے والی لڑکیوں کی تعداد انگلستان اور نیدر لینڈ کی نسبت دگنی تھی۔ الجزائر اور مصر میں انجینئرنگ پڑھنے والی لڑکیاں کینیڈا یا اسپین کی لڑکیوں کی نسبت کہیں زیادہ تھیں۔

کیسی دلچسپ بات ہے کہ ان کی ناخواندہ دادی نے انھیں وہ راستہ دکھایا جس پر چل کر وہ مسلم دنیا کی اہم ترین دانشوروں میں سے ایک ہوئیں۔مسلمان آج جس ذہنی اور سیاسی انتشار کا شکار ہیں، اس میں فاطمہ مرنیسی جیسی دانشوروں اور بے نظیر بھٹو جیسی ہتھیلی سر پر رکھ کر پھرنے والی مسلمان عورتوں کی ضرورت ہے جو مشرق و مغرب کے تصادم کو تہذیبی اور ثقافتی سطح پر مکاملے اور مباحثے کے ذریعے کم اور ختم کرنے کی کوشش کریں۔ افسوس کی موت نے ان دو کمال اوربے مثال عورتوں کو ہم سے چھین لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔