یادِ رفتگان؛ سیّد علی گیلانی

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 9 جنوری 2022
کشمیر کے قافلۂ حریت کا سالار، جو گذشتہ برس قید حیات سے آزاد ہوگیا

کشمیر کے قافلۂ حریت کا سالار، جو گذشتہ برس قید حیات سے آزاد ہوگیا

رب کے راز تو رب ہی جانتا ہے جی! یا وہ جسے مومن ہونے کی سند عطا کی گئی ہو اور پھر جب کوئی مومن کے منصب پر فائز کردیا جائے تو اسے بصیرت جیسا انعام کرامت کیا جاتا ہے، ایسی بصیرت کہ جناب رؤف و رحیم و کریم مخبر صادقؐ نے جس سے یہ کہہ کر خبردار کیا: ’’مومن کی بصیرت سے ڈرو کہ وہ تو خدا کے نُور سے دیکھتا ہے۔‘‘ اور جس کی بینائی خدا کے نُور سے روشن ہو، اس سے کیا حجاب میں رہ سکتا ہے بھلا، ایسے تھے وہ!

ایک ایسے مزدور کہ جسے اﷲ کا دوست ہونے کا اعزاز عنایت کیا گیا ہو، رزق حلال سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کا شکم آسودہ کرنے والے مزدور۔ اور مزدور بھی ایسے کہ نہروں کی کھدائی کیا کرتے کہ خلق خدا کی تشنگی سیراب ہوسکے اور وہ ایسے کیوں نہ ہوتے کہ ان کے جد اعلیٰ کو ساقی کوثرؐ کا اعزاز جو حاصل ہے۔

تحصیل بانڈی پورہ، نہر زینہ گیر کی کھدائی کرنے والے اس مزدور کا اسم گرامی سیّد پیر شاہ گیلانی تھا۔ رب تعالی نے اپنے اس باصفا بندے کے نصیب میں ایک ایسے انسان کے والد گرامی ہونے کا شرف لکھا تھا کہ جسے مظلوموں، بے کسوں، لاچاروں اور غلامی کے شکنجے میں کسے ہوئے مقہور انسانوں کی راہ نمائی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

29 ستمبر 1929 کو اسی مزدور کے گھاس پھوس کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام اس نے کشمیر میں تحریک انقلاب کے اولین داعی و قائد سیّد علی ہمدانیؒ کے نام پر سیّد علی گیلانی رکھا۔

13جولائی 1931کو جب سری نگر کی مرکزی جیل کے احاطے میں غاصب ڈوگرہ مہاراجا سے بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار نوجوان عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر ڈوگرہ سام راج کی پولیس کی فائرنگ سے بائیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے اپنے خون مطہر سے تحریک آزادی کشمیر کا آغاز کیا تھا، سید علی گیلانی اس وقت دو سال کے تھے۔

سید علی گیلانی نے شعور کی آنکھ کھولی تو آزادی کی تحریک جوبن پر تھی۔ ڈوگرہ استعمار کے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہورہے تھے اور آزادی کے متوالے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے شہادت کے منصب پر فائز ہورہے تھے۔

ایسے ماحول میں سیّد علی گیلانی کا بچپن اور لڑکپن گزارا۔ سید علی گیلانی نے ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول بوٹنگو، سوپور سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول سوپور سے کیا۔ اس کے بعد آپ حصول تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور اسلامیہ کالج سے ادیب عالم کا امتحان پاس کیا۔ ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں کشمیر یونی ورسٹی سری نگر سے حاصل کیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ ریاست کے محکمہ تعلیم سے بہ طور معلم وابستہ ہوگئے۔ 1947ء میں جہاں ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو ملک آزاد حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے وہاں یہ سال ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے مزید سفاک تر غلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور کشمیریوں کی آزادی اندھیروں میں گم ہوگئی۔

سیّد علی گیلانی پر اس سانحے کا انتہائی گہرا اثر ہوا۔ ہر چند شیخ عبداﷲ اور اس کے قوم پرست ساتھی لوگوں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ان کی گردن میں جو پھندا ڈالا گیا ہے وہ غلامی کا طوق نہیں بل کہ آزادی کا ہار ہے لیکن سید علی گیلانی، شیخ عبداﷲ کی اس منطق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوسکے۔ وہ بہ خوبی جانتے تھے کہ کشمیریوں کے ساتھ شیخ عبداﷲ اور اس کے لالچی ٹولے کا یہ دوسرا دھوکا ہے۔ پہلا دھوکا 1938ء میں مسلم کانفرنس کا نیشنل کانفرنس میں انضمام تھا۔ جس کے نتیجے میں آزادی کشمیر کو سخت دھچکا لگا تھا۔

شیخ عبداﷲ اور ہر ی سنگھ کی ملی بھگت سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق دوسرا سب سے بڑا فراڈ اور کشمیریوں کے ساتھ عریاں غدّاری تھی۔ مستقبل کے پردے میں چھپے ہوئے کئی مہیب خطرات کی آہٹ سیّد علی گیلانی کو مضطرب کیے ہوئے تھیں اور ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اب ان خطرات حالات کا مقابلہ کون اور کیسے کرے گا۔۔۔۔؟ اسی دوران تحریک اسلامی جموں و کشمیر کے امیر جنا ب مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی اور یوں سید علی گیلانی جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔

سیّد علی گیلانی سب سے بڑھ کر تعزیر و تعذیب کے مستحق ٹھہرے کہ انہوں نے بھارتی استعمار کو زیادہ جرأت اور بے باکی سے للکارا تھا۔ سید علی گیلانی کی آواز حق گونجتی رہی: ’’میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا۔ میں بھارتی سام راج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا۔‘‘

جناب سیّد علی گیلانی کو 28 اگست 1962ء کو پہلی بار گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، جہاں وہ تیرہ ماہ تک قید رہے۔ اس کے بعد تو جیل سیّد علی گیلانی کا مستقل ٹھکانا بن گئی۔ جیل میں ایک اور مرد درویش جناب حکیم مولانا غلام نبی بھی موجود تھے، جو بعد میں امیر جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر بھی رہے، کی قربت نے سید علی گیلانی کی علمی و عملی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

مولانا حکیم غلام نبی کے علم و تقوی نے سید علی گیلانی کی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ اسی اسیری کے عرصے میں علی گیلانی کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا، لیکن آپ کو والد ماجد کا آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ رہائی کے بعد علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے سیکریٹری جنرل بنا دیے گئے۔ رہائی کے بعد وہ پہلے سے زیادہ بلند آہنگ میں آزادی کی صدا بلند اور پوری یک سوئی سے ہندوستانی استعمار سے رائے شماری کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ عوام کو آپ نے آزادی کے حصول کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ 7 مئی1965ء کو انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں1967ء میں رہا کیا گیا، رہائی کے فوراً بعد سری نگر میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں سید علی گیلانی نے ایک بار پھر اپنے عزم آزادی کا بہ بانگ دہل اظہار کر کے بھارتی غاصب حکم رانوں کی نیند حرام کردی۔

1987 میں سید علی گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی کئی پاکستان نواز تنظیمات کے اتحاد ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘ کی حمایت میں الیکشن لڑ کر اس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداﷲ کو تاریخی چیلینج سے دوچار کیا، تاہم انتخابات میں بدترین دھاندلیوں اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداﷲ اقتدار برقرار رکھنے میں کام یاب ہوگیا اور سیّد علی گیلانی سمیت محاذ کے بھی دیگر امیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔ چند سال بعد جب کشمیر میں پاکستان سے الحاق کے لیے ہمہ گیر مسلح شورش برپا ہوئی تو سید علی گیلانی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔

ان کے ساتھ عبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دیا اور دونوں نے تحریکِ آزادی کی حمایت کا اعلان کردیا لیکن صرف دو سال کے اندر کشمیر میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ سید علی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔

2002 میں عبدالغنی لون کے قتل کے بعد جب کشمیر میں انتخابات ہوئے تو بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ سید علی گیلانی نے حریت کی اس وقت کی قیادت پر الزام عائد کیا کہ اس نے الیکشن بائیکاٹ میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اسی اختلاف پر وہ اپنے حمایتیوں سمیت الگ ہوگئے اور حریت کانفرنس کے سربراہ بن گئے۔

اس کے بعد سید علی گیلانی کا دھڑا سخت گیر کہلانے لگا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کیے جانے والے مذاکرات کو فضول مشق اور وقت گزاری سے تعبیر کیا۔ نئی دلی میں پاکستانی سفارت خانے میں مشرف اور سید علی گیلانی کے درمیان 2005 میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ انہیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر ان کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں۔ اس سے سیّد علی گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور وہ خاص کر نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان ان کی تصویر ایک انقلابی راہ نما کے طور بلند کرنے لگے۔

2014 میں جب نریندر مودی نے نئی دلی میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو کشمیر کے تئیں نئی دلی کا رویہ سخت ترین ہوگیا۔ 2016 میں مقبول عسکریت پسند کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد برپا ہونے والی عوامی تحریک آتش فشاں بنتی چلی گئی۔ لیکن نریندر مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آتے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیے دیا گیا اور سیکڑوں راہ نماؤں سمیت یاسین ملک کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔ سیّد علی گیلانی پہلے ہی کئی برسوں سے گھر میں نظر بند تھے۔ پھر اسی سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا، جس کے نتائج کشمیری آج بھی قدغنوں، گرفتاریوں اور خوف و ہراس کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

سید علی گیلانی کے موقف کو اس قدر مقبولیت اس لیے بھی ملی کہ کشمیریوں نے شیخ محمد عبداﷲ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اس کی بھرپور حمایت کی تھی۔ لیکن بائیس سال تک رائے شماری کی تحریک چلانے کے بعد 1971 میں جب انہوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتا کر کے کشمیر کا اقتدار سنبھالا تو کشمیریوں کی توقعات کا قتل ہوگیا۔ اس کے مقابلے میں سیّد علی گیلانی نے مواقع دست یاب ہونے کے باوجود کوئی سمجھوتا نہیں کیا اس لیے کشمیریوں نے انہیں اپنا اصل نجات دھندہ سمجھا۔ سید علی گیلانی اپنے دیرینہ اور بے خوف مؤقف کی صورت میں ایسا سیاسی اور نظریاتی ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والے لوگوں کو بھی متحد کرتا رہے گا۔

سیّد علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔ شعر و سخن سے شغف اور شعلہ بیاں خطابت کی وجہ سے بھی وہ بہت مشہور تھے۔

انہوں نے 1977 ،1972اور1987 میں جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب جیتے۔ سیّد علی گیلانی ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے بھی رکن تھے۔ وہ یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت راہ نما ہیں۔ انہوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام ’’روداد قفس‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ سیّد علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر بہتّر سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی سب سے توانا آواز تھے۔ پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر سیّد علی گیلانی کو ’’نشانِ پاکستان‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت راہ نماؤں نے وصول کیا۔

آزادی کی ان تھک جدوجہد کے اس باصفا اور باوفا مرد مجاہد نے دوران نظربندی یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی جان خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش کردی۔ بھارت نے ان کی وفات کے دن ان کی نعش اپنے قبضے میں لے لی اور سری نگر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ عوام کو ان کی میّت کے قریب تک آنے نہ دیا گیا۔ سید علی گیلانی کی وفات کے بعد انڈین حکام نے سخت سکیورٹی میں ان کی تدفین کروا دی جس میں صرف چند قریبی رشتے داروں کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔ سیّد علی گیلانی کی عمر 92 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے نظربند اور علیل تھے۔

بھارتی حکومت سیّد علی گیلانی کی میت سے بھی خوف زدہ رہی اور کیوں نہ ہوتی کہ جس نے عہد اور اعلان کیا تھا: ’’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی راہ نمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔ میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتا۔ میں بھارتی سام راج کا باغی ہوں اور اس بغاوت کے جرم میں مجھے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنا پڑا تو میں اسے اپنی سعادت سمجھوں گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔