آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی بونڈائی بیچ پردہشت گردی کی واردات میں 16افراد مارے گئے ہیں جب کہ40کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔میڈیا کی اطلاع کے مطابق بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ اتوار کی شام تقریباً پونے سات بجے کے قریب پیش آیا ہے۔اس روز ساحل سمندر پر جیویش فیسٹیول ہنوکا(Hanukkah)کی تقریب ہو رہی تھی۔
اس دوران سیمی آٹومیٹک گنوں سے مسلح دو افراد نے تہوار منانے والے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔جب یہ واقعہ پیش آیا ساحل پر تقریباً ایک ہزار افراد موجود تھے۔اس واقعہ کے فوراً بعد غیر ملکی میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غیر مصدقہ اطلاعات کا طوفان برپا ہو گیا۔بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔تازہ اطلاعات کے مطابق مقامی پولیس نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دے دیا ہے۔پولیس کے مطابق حملے میں ملوث افراد باپ بیٹا تھے، جن میں سے ایک حملہ آور ہلاک ہو گیا ہے جب کہ دوسرا شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہے۔میڈیا نے بتایا ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ زخمی حملہ آور گزشتہ 10 برس سے اسلحہ لائسنس کا حامل تھا اور ایک گن کلب کا باقاعدہ رکن بھی تھا۔
اس کے قبضے سے چھ ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں، جن کے فائرنگ واقعے میں استعمال ہونے یا نہ ہونے کی تحقیقات جاری ہیں۔پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب سے دو فعال دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیے، جنھیں محفوظ بنا دیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ مزید کسی حملہ آور کی تلاش ختم کر دی گئی ہے، تاہم واقعے کے محرکات اور پس منظر کی تحقیقات جاری ہیں۔واقعے کے بعد آسٹریلوی حکومت نے یومِ سوگ کا اعلان کیا ہے اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
نیو ساؤتھ ویلز پولیس کا کہنا ہے کہ اگر ایک بندوق بردار کو وہاں موجود 43 سالہ مسلمان پھل فروش احمد الاحمد نہ روکتا توجانی نقصان بڑھ سکتا تھا۔مقامی ٹی وی چینل 7News پرایک سوشل میڈیا فوٹیج دکھائی جارہی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ احمد الاحمد ایک حملہ آور سے بندوق چھیننے کی کوشش کررہا ہے ،اسے اس کارروائی کے دوران دو گولیاں بھی لگیں لیکن وہ حملہ آور سے لڑتا رہا،وہ اس وقت اسپتال میں زیرعلاج ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گردش کرنے والی وڈیوز میں بونڈائی بیچ پر موجود لوگوں کو فائرنگ اور پولیس سائرن کی آوازوں کے دوران بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔آسٹریلوی وزیرِاعظم البانیز نے اسے ایک منصوبہ بندی والا حملہ قرار دیا اور کہا ہے کہ اس ’نفرت اور تشدد کے گھناؤنے عمل‘ کے لیے آسٹریلیا میں کوئی جگہ نہیں۔ نیوساؤتھ ویلز پولیس کمشنر میل لینین نے اس واقعے کو باضابطہ طور پر ’دہشت گردی‘ قرار دیا ہے۔
صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کمشنر لینین نے کہا کہ وہ ، خوب جانتے ہیں، کہ سوشل میڈیا پر ایک نام گردش کر رہا ہے جسے حملہ آور کی شناخت بتایا جا رہا ہے، پولیس دو حملہ آوروں کے بارے میں جانتی ہے۔ انھوں نے عوام سے تحمل کی اپیل کی ہے۔ آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیزے نے واقعے کو انتہائی چونکا دینے والا اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔ آسٹریلیاکی سرکردہ مسلم تنظیم آسٹریلین نیشنل امام کونسل نے اس واقعہ کو وحشت ناک قراردیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا ہے کہ آسٹریلوی مسلمانوں کی ہمدردیاں اور دعائیں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے ایکس پر اپنے بیان میں اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔
برطانوی شاہ چارلس نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری دعائیں متاثرین کے ساتھ ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی ایکس پر جاری اپنے مذمتی بیان میں اسے دہشتگردی اور انسانیت سوز قراردیا ہے۔صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف نے بھی اس افسوسناک واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ’سفاکانہ اور مہلک حملے‘ سے ’بہت زیادہ خوفزدہ‘ ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔
دہشت گردی خواہ کسی بھی ملک میں ہو اور اس کا کوئی بھی جواز ہو ‘اسے کسی طور بھی حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والی دہشت گردی کی یہ واردات یقیناً قابل افسوس ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا کے بعض حصوں اور بھارتی میڈیا نے مجموعی طور پر انتہائی غیر ذمے دارانہ اور منفی کردار ادا کیا ہے۔ اس معاملے میں افغانستان کا میڈیا بھی پیچھے نہیں رہا اور اس نے بھی پاکستان کے بارے میں منفی باتیں کر کے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ساحل سمندر پر حملہ کرنے والے کون ہیں ‘ان کا تعلق کس ملک سے ہے ‘اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ جو دو حملہ آور سامنے آئے ہیں ‘ان کے نام خواہ کوئی بھی ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ آسٹریلیا کے ہی شہری تھے اور وہیں مقیم تھے ۔ آسٹریلیا آنے سے پہلے وہ کس ملک میں رہتے تھے یہ سوال اب معنی نہیں رکھتا۔اس لیے میڈیا کو کوئی بھی بات کرتے ہوئے افواہیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور خود ساختہ بیانیہ بنانے سے باز آنا چاہیے۔
افغانستان کے بارے میں تو سب کو اس کا پتہ ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ لاکھوں افغان باشندے جعل سازی اور فراڈ کے ذریعے پاکستانی دستاویزات لے کر بیرون ملک گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے خلیجی ممالک سے لے کر یورپی ممالک تک پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز ایران کے دارالحکومت تہران میں افغانستان کے قریبی پڑوسیوں اور روس کے سینئر حکام کااہم اجلاس ہوا ہے جس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر بات چیت کی گئی ہے۔
میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران طالبان حکومت اور علاقائی سلامتی کے بارے میں نقطہ نظر پر جاری اختلافات نمایاں ہوئے ہیں۔ ایران کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان، چین، روس، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے نمایندے شریک ہوئے۔ افغان طالبان نے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے ملک کے معاملات کو کس طرح سنجیدہ لیتی ہے۔ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کسی ایسے فورم میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ایک متحدہ علاقائی حکمت عملی کو مربوط کرنے کی کوشش کے لیے بلایا گیا ہو۔بہر حال تہران اجلاس میں ایک نکتہ پر اتفاق رائے قائم رہا کہ افغان سرزمین سے نکلنے والی دہشت گردی خطے کے لیے ایک اہم خطرہ بنی ہوئی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے آغاز میں ایک کلیدی خطاب کیا جس میں علاقائی سلامتی کے لیے افغانستان کے استحکام کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ انھوں نے کہا افغانستان کی سلامتی تمام پڑوسی ممالک کے مفادات سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ عراقچی نے زور دیا کہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر رضامندی سے ہی طالبان کے ساتھ بامعنی تجارتی شمولیت ہوسکتی ہے۔
پاکستان کی نمایندگی افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے محمد صادق نے کی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے نکلنے والی دہشت گردی "خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج" بنی ہوئی ہے۔ افغان عوام پہلے ہی کافی مشکلات برداشت کر چکے ہیں اور طالبان کی ڈی فیکٹو حکام کو حالات کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم افغان سرزمین کو تمام قسم کے دہشت گردوں سے بلا امتیاز پاک کرنا ہوگا۔ صرف دہشت گرد نیٹ ورکس سے پاک افغانستان ہی پڑوسیوں کے درمیان اعتماد پیدا کر سکتا ہے اور بامعنی شمولیت کو ممکن بنا سکتا ہے۔ ایرانی حکام نے پاکستان کے نمایندوں کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی کی۔ پاکستانی نمایندے محمد صادق نے وزیر خارجہ عراقچی سے ملاقات کی۔
اس پس منظر سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی چاہے علاقائی ہو یا عالمی ‘اس کے خاتمے کے لیے ان ممالک کی حکومتوں کو موثر کردار ادا کرنا پڑے گا جو ممالک دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھارت کی حکومت کی پالیسی پر بھی گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ بھارتی میڈیا بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے بارے میں مسلسل شرانگیز اور منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ سڈنی میں جو واقعہ ہوا اس کے بارے میں جب تک پوری تفصیلات سامنے نہیں آ جاتیں تب تک اس کے بارے میں کسی قسم کی منفی بات کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے ۔