مجھے کون سا کام کرنا آتا تھا جس سے کمائی ہوتی، سب سے آسان کام تو مزدوری ہی ہے، اسی سے شروع کیا اور دن بھر کے مشقت کے بعد شام کو جب مزدوری کی رقم ملتی تو سکون ملتا کہ اب میں اپنے بھائی کو پڑھا سکوں گا۔
تعلیم حاصل کرنے کا اپنا خواب تو پورا نہ کر سکاکہ میرے باپ کو احساس ذمے داری نہ تھا مگر اپنے بھائی کی زندگی میں ایک ذمے دار باپ کی طرح اسے سہارا دینا ہے، وہ پڑھائی میںاچھا ہے اور اس کا خواب ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے کیونکہ ہمارے علاقے میں دور دور تک کوئی اچھا ڈاکٹر نہیں ہے۔ اچھے ڈاکٹر تو اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے، اس چھوٹے سے قصبے یا اس کے قریبی شہر میں کہاں رہتے-
میں کسی کسی دن کام کے اوقات کے بعد بھی ، ذرا دیر کو آرام کر لیتا تھا اور اس کے بعد جو کام والے کاریگر کام کر رہے ہوتے تھے مثلا کارپنٹر، پلمبر، الیکٹریشن، ماربل اور ٹائل لگانے والے… میں سب کے ساتھ مددگار کے طور پر کام کر لیتا، کبھی کبھار تو صرف تار کے ساتھ لٹکتا ہوا بلب پکڑ کر ہی گھنٹوں کھڑا رہتا جس کی روشنی میں وہ کام کرتے تھے- اس کے عوض وہ مجھے کچھ رقم ہر روز دے دیتے تھے- انھیں اپنے چھوٹے کو دینے والی دیہاڑی بچ جاتی اور مجھے فالتو رقم کے ساتھ فالتو کام کرنا بھی آ گیا-
میںنے اس دن پہلی بار اپنی دن کی کمائی پوری کی پوری خرچ کر کے دو کلو مٹھائی منگوائی تھی جس دن میرے بھائی کا نتیجہ آیا تھا، اس نے پورے بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی، میرے لیے اس کی کامیابی اپنی کامیابی جیسی تھی- لوگ کہتے ہیں کہ بھائی بھائیوں کی کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں، ایک دوسرے کے شریکے ہوتے ہیں مگر ہم دونوں میں ایسا نہ تھا کیونکہ میںنے اسے اپنا بھائی سمجھا ہی کب تھا، میںنے تو اسے باپ بن کر پالا تھا۔
باپ جو اپنی اولاد کی کامیابیوں پر جھوم اٹھتا ہے، جس دن میں نے مٹھائی تقسیم کی تھی اور رات کو سونے سے پہلے اپنے بھائی سے بات کی کہ وہ اب کالج میں داخلے کے لیے فارم وغیرہ لے اور مجھے بتائے کہ فیس کتنی جمع کروانا ہو گی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بہت اچھے کالج میں پڑھے مگر اس نے کہا کہ وہ سرکاری کالج میں پڑھ لے گا کیونکہ اس نجی کالج میں فیس اور باقی اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔
ایک ہفتے کے بعد میرے بھائی کے اسکول میں اس کے اعزاز میں تقریب ہوئی، ا س نے مجھے بتایا تھا، میں دن بھر شام ہونے کا انتظار کرتا رہا کہ شام ہو گی اور وہ مجھے اپنے دوست کے فون سے تصویریں بھیجے گا۔ شام کو تصویریں دیکھ کر میرا دل خوشی سے سینے کی دیواریں توڑ توڑ کر دھڑکنے لگا، بھائی نے بتایا تھا کہ اس کے اسکول کی تقریب میں میڈیا والے بھی تھے کیونکہ اس نے اپنے بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ ایک غریب گھر کے لڑکے نے، جس کا بھائی اس کے لیے باپ بننے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا، آج اس کی کوششوں کا ثمر مل گیا تھا-
جس کالج میں اس کی تعلیم کو ہم صرف خواب سمجھ رہے تھے، اس کالج والوں نے اسے اسکالر شپ پر داخلہ دیا یعنی اس کے تمام تعلیمی اخراجات وہ ادارہ خود اٹھائے گا- لیکن میرے بھائی کی کتابیں، یونیفارم اور جوتے اورقصبے سے ذرا دور کالج جانے کے لیے اسے سائیکل چاہیے تھی-
یہ یک مشت کی ادائیگی؟؟ میںنے تو کبھی عید پر بھی نیا جوڑا نہیں بنوایا، چٹنی اور روٹی کے سوا کچھ کھایا نہیں، کبھی کسی زیر تعمیر عمارت میں سردیوں میں ٹھٹھرتے، گرمیوں میں پسینے سے شرابور اور مچھروں کی بہتات کے باوجود کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ میں کہیں کرائے کے کمرے میں دوسروںکی طرح رہ لوں جیسے باقی لوگ رہتے ہیںم، صرف ایک ہی لگن ہے کہ اپنا خون پسینہ لگا کر اپنے بھائی کو پڑھاؤں، اس کے خواب پورے کروں جو اصل میں میرے خواب تھے مگر کوئی پورے نہ کرسکا ۔
میں ایک مزدور تھا، اب مستری بن گیا ہوں، میں ترقی کروں گا تو ہیڈ مستری بن جاؤں گا، ٹائل اور ماربل لگانے والا بن جاؤں گا ، کرسیاں اور میز بنانا سیکھ لوں گامگر میرا بھائی … میرا بھائی ہے، بیٹا ہے ، میں اس کے تمام شوق پورے کروں گا۔ اس کے پاس وہ ذہن ہے جو بسا اوقات امیروں کے بچوں کے پاس بھی نہیں ہوتا، وہ ذہین ہے تو اسے اپنی ذہانت کی بلندی کو چھونا ہے۔
ہمارا باپ ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر سہی مگر بیٹے تو ہم اسی کے کہلائیں گے، ایک کرسی پر بیٹھ کر مسیحائی کرے گا اور ایک میں ہوں گا جسے کہیں بھی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی خواہ وہ کرسی میں نے اپنے ہاتھ سے بنائی ہو، میرے جیسے لاکھوں اور کروڑوں ننھے ننھے باپ ہیں جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی خاطر اپنا بچپن بھی تج دیتے ہیں۔