دو ہزار گیارہ تا اکیس دس سالہ خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زائد شہری سرکاری اور مخالف دستوں کے درمیان لڑائی کا رزق بن گئے۔بشارِ الاسد کے چوبیس سالہ دورِ حکومت میں لگ بھگ بارہ لاکھ شہریوں کو حراست میں لیا گیا۔گزشتہ برس جون تک اقوامِ متحدہ کی ایک ٹیم نے سو سے زائد جیلوں اور ایک سو اٹھائیس نظربندی مراکز کی نشاندہی کا کام مکمل کیا۔
سب سے بڑی جیل بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور میں دمشق سے تیس کیلومیٹر پرے سیدنیا میں انیس سو ستاسی میں تعمیر کی گئی۔ تکونی بلاکس پر مشتمل اس جیل میں بیس ہزار قیدی رکھنے کی گنجائش تھی۔یہاں نوے فیصد قیدی تشدد کے تجربے سے گذرے۔سابق قیدیوں نے شہادت دی کہ ٹارچر کے باون جسمانی ، نفسیاتی اور جنسی طریقے استعمال ہوتے تھے۔ناکافی خوراک ، ناقص طبی سہولتیں ، برقی جھٹکے ، الٹا لٹکانا ، آنکھوں پر پٹی باندھ کر گولی مارنے کا تاثر اور مارپیٹ کے طریقے عام تھے۔
بدعنوان اہلکار اور ان کے دلال ان قیدیوں کے اہلِ خانہ سے رابطے اور تلاش کے بہانے بھاری رقم اینھٹتے۔ قیدی زندہ ہے کہ نہیں۔ اتنی سی اطلاع کی قیمت ڈیڑھ ہزار ڈالر تک تھی۔چار ہزار ڈالر کے عوض جلد رہائی کا وعدہ کیا جاتا جو شاذ و نادر ہی پورا ہوتا۔
دو ہزار گیارہ تا پندرہ سیدنیا جیل میں تھوک کے بھاؤ سزاِ موت کا سلسلہ چلتا رہا۔ بنا وکیل و ثبوت قیدیوں کے خلاف ہفتے میں ایک بار چند منٹ کا عدالتی ڈرامہ ہوتا۔ایک ایک وقت میں پچاس پچاس قیدیوں کی سزاِ موت کا فیصلہ سنایا جاتا۔یہاں دوہزار گیارہ تا پندرہ کے برس میں تیرہ ہزار قیدیوں کی سزاِ موت پر عمل ہوا۔دو ہزار گیارہ سے دو ہزار بیس کے عرصے میں لگ بھگ تیس ہزار قیدی بھوک ، تشدد اور سزاِ موت کے ذریعے مار دیے گئے۔
سیدنیا جیل سے ان نو برسوں میں صرف سات ہزار قیدی رہا ہوئے۔جیل کے احاطے میں ہی لاشوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے ایک کریمیٹوریم بھی بنایا گیا۔ہزاروں لاشوں کو ویرانے میں اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔قطیفہ کے نزدیک اجتماعی قبر میں ساٹھ سے اسی ہزار لاشوں کا اندازہ ہے جو سیدنیا سمیت مختلف جیلوں سے یہاں لائی گئیں۔
لاپتہ لوگوں کی تلاش کے لیے قائم نیشنل کمیشن کا اندازہ ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار سے تین لاکھ کے درمیان لوگ لاپتہ ہیں۔ان میں سے ایک لاکھ بارہ ہزار سابق حکومت کے کارندوں نے اٹھائے۔غائب ہونا اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔کسی بھی مخبر کی اطلاع ، خفیہ پولیس کا اندازہ ، کسی پہنچ والے ہمسائے سے شکر رنجی ، کسی رشتے دار کی دشمنی یا کسی کو رشوت دینے سے انکار کافی تھا۔
آٹھ دسمبر دو ہزار چوبیس کو جب سب سے بڑے عقوبت خانے سیدنیا کے دروازے ٹوٹے تو ہزاروں لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں ٹوٹ پڑے۔جس کے ہاتھ جو کاغذ آیا لے اڑا۔ہر جانب قدموں تلے کچلے کاغذ اور فائلیں پڑی تھیں۔یوں جیل کا قیمتی ریکارڈ بہت حد تک ضایع ہو گیا۔ تشدد کے آلات ، زنجیریں ، رسے ، برقی تاریں وغیرہ بھی بطور سووینیر لٹ گئیں۔
جیل ٹوٹنے کے بعد یہاں تینتالیس سو قیدی زندہ پائے گئے۔دمشق کے جن کھمبوں پر بشار الاسد کی تصاویر تھیں اب ان پر گمشدگان کی تصاویر ٹنگی ہیں۔لوگوں نے تصاویر کی فوٹو کاپیاں دیواروں اور دروازوں پر چپکا دیں۔جب بھی کسی لاپتہ کے وارث کو فرصت ملتی ہے وہ کسی بھی قبرستان یا اسپتال کا پرانا کھاتہ چیک کرنے کے لیے ریکارڈ کیپرز کی خوشامد کرتا ہے۔کبھی ریکارڈ تک رسائی ہو جاتی ہے ، اکثر نہیں بھی ہوتی۔بس کوئی کاغذ کا ٹکڑا مل جائے جس پر غائب ہونے والے کا نام ہو۔کچھ تو تسلی ہو جائے۔
اس سال مئی میں لاپتہ لوگوں کا پتہ لگانے کے لیے حکومت نے قومی کمیشن برائے گمشدگان اور ایک انصاف کمیشن قائم کیا۔ مختلف شہروں میں مشاورتی بورڈ تشکیل دیے گئے۔مگر بجٹ کی کمی ، فورنزک سہولتوں اور ماہرین کی قلت کے سبب بازیابی کا کام نہائیت سست رفتار ہے۔قومی ڈیٹا مرتب کرنے کے کام میں سول ڈیفنس کے سفید ہیلمٹ والے ہزاروں رضاکار بھی جٹے ہوئے ہیں۔انھیں جہاں سے جو کاغذ ، کپڑے کا ٹکڑا ، دانت یا ہڈی ملتی ہے ان کی تصاویر کھینچے کے بعد یہ مٹیریل شناخت مرکز تک یہی رضاکار مہربند ڈبوں میں پہنچاتے ہیں۔اگلا کام اس میٹریل کو الگ الگ کرنا اور جانچنا ہے۔اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ شناخت کے کام میں لاپتہ لوگوں کی بین الاقوامی تنظیم ( آئی سی ایم پی ) اور ریڈ کراس بھی مقامی اداروں کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔
حکومت کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ جیلوں اور نظربندی مراکز کا بہت سا ریکارڈ ، سویلین و فوجی ریکارڈ حکومت مخالف گروہوں اور لاپتہ افراد کی مختلف تنظیموں یا افراد سے لے کر کیسے جمع کیا جائے تاکہ ایک مربوط ڈیٹا بیس مرتب کر کے تلاش و بازیابی کے کام کو بہ احسن و خوبی انجام دیا جا سکے۔ زندہ بچ جانے والے قیدیوں یا لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ ، سابق حکومت کے اہلکاروں اور نظربندی مراکز یا جیل کے سابق عملے کے بیانات اور شہادتیں بھی درکار ہیں۔
اس وقت دمشق میں ہی ایک شناحت مرکز ریڈ کراس کے تعاون سے فعال ہے۔پورے ملک میں ڈی این ٹیسٹنگ کی بھی کوئی لیب نہیں ۔ اگر بیرونِ ملک سے مددگار ماہرین آ بھی جائیں تو ان حالات میں وہ کیا کریں گے۔مگر لاکھوں متاثرہ خاندانوں کو محض باتوں اور یقین دہانیوں سے دلاسہ نہیں مل سکتا۔
بہت سے لوگوں نے اپنے لاپتہ اہلِ خانہ کی یہ فرض کر کے رپورٹ نہیں کروائی کہ کیا فائدہ۔ہر پانچواں شامی شہری بیرونِ ملک ہے۔لہٰذا ڈی این اے میچنگ کیسے کی جائے۔
بشار الاسد کی انٹیلی جینس کے یونٹ دو سو پندرہ ، دو سو ستائیس اور دو سو پینتیس کا نام سن کر کسی بھی شہری کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ سکتی تھی۔مگر ایسا بھی ہوا کہ ان یونٹوں سے منسلک اکادکا اہلکار اپنے کام سے نفرت کرتے تھے۔انھیں میں سے ایک افسر فرید المدہان عرف سیزر نے پچپن ہزار لاشوں کی تدفین سے پہلے کے تصویری ریکارڈ کی نقل ایک یو ایس بی کے ذریعے بیرونِ ملک اسمگل کی۔بشار الاسد کے زوال کے بعد انھوں نے سیزر گروپ کے نام سے گمشدہ افراد کی تلاش کے لیے ایک فعال تنظیم بھی قائم کی جس کی تحویل میں بہت سا قیمتی ڈیٹا ہے۔یہ تنظیم اپنے تئیں متاثرہ لواحقین کو تصاویر تک رسائی دیتی ہے۔اس طریقے سے سیکڑوں لاپتہ لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے۔
فسطائیت ختم ہونے کے بعد بھی قوم کے جسم اور روح کے گھاؤ راتوں رات نہیں بھرتے۔یہ اذیت کم ازکم اگلی دو نسلوں تک سفر کرتی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)