ولی خان، ختم ہوتی کہکشاں کا روشن ستارہ

زاہدہ حنا  بدھ 2 فروری 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی محب وطن لوگوں کو ’’غدار‘‘ کہنے کی روش عام ہوگئی تھی۔ ہر وہ شخص جس نے حکمرانوں کی سیاست سے اختلاف کیا وہ ’’ غدار ‘‘ ٹھہرا۔

چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کرنے والے ، جمہوریت کے قتل پر اعتراض کرنے والے ، مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر آواز اٹھانے والے اور تاریخ کو درست تناظر میں پڑھانے پر اصرار کرنے والے، فرقہ واریت، مذہبی، نظریاتی اور سیاسی انتہا پسندی کے خلاف موقف اختیار کرنے والے، سب ہی غدار ٹھہرے۔

ولی خان کا شمار بھی غداروں کی اسی فہرست میں ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں ان کے والد اور تقسیم کے وقت آل انڈیا کانگریس پارٹی کے ایک نہایت اہم رہنما خان عبد الغفار خان اپنے لوگوں میں باچا خان کہلاتے تھے ، ان کا شمار برصغیر کے اہم قومی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ کبھی ’’ سرحدی گاندھی‘‘ کبھی ’’ پشتون گاندھی‘‘ کہے گئے۔ انھوں نے اپنی قمیص سرخ اینٹوں کی دھول سے رنگی تو ان کے تمام پیروکاروں نے اپنی قمیصیں اسی  سرخ رنگ میں رنگ لیں۔

یہ لوگ جو خود کو ’’خدائی خدمت گار‘‘ کہتے تھے ’’سرخ پوش‘‘ کہلائے۔ حکومت برطانیہ نے ان کے سرخ پوش ہونے کی وجہ سے ان کا رشتہ سوویت یونین کے انقلاب سے جوڑا اور اس وقت کی خفیہ ایجنسیوں نے انھیں ’’سرخا‘‘ قرار دیا۔

1921 سے خان عبد الغفار خان کی قید و بند کا سلسلہ شروع ہوا ، پہلے انھوں نے فرنگی کی جیل کاٹی، پاکستان بنا تو صورت حال یہ تھی کہ باچاخان اور ان کے نظریاتی اور سیاسی ساتھیوں کے لیے جیل کے دروازے کھول دیے گئے۔ باچاخان نے پاکستان میں جتنے بھی دن گزارے ان میں سے بیشتر جیل میں گزرے یا وہ اپنے گھر پر نظر بند رہے۔ اپنی سیاسی زندگی میں انھوں نے 47 سال جیل اور جلاوطنی میں گزارے۔

ولی خان نے بھی قید وبند کی تمام مشکلات اور غداری کے تمام الزامات کے باوجود اصول پرست سیاست کی اور پرامن سیاسی جدوجہد کے فلسفے کو اپنایا۔ عدم تشدد کی بات کرتے ہوئے مجھے تریپن نوبل انعام یافتگان کا 1981ء کا وہ ’’ منشور ‘‘ یاد آیا جس میں کیمیا سے طبیعیات تک کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان قابل شخصیات نے غربت و افلاس سے ہونے والی اموات کو ’’ قتل عام ‘‘ اور تشدد قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عالمگیر تباہی کی مذمت اور مزاحمت کرنے والے تمام افراد میں اس امر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس المیے کی وجوہ سیاسی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس المیے کی ذمے داری دنیا کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کی ذمے داری ان کی بھی ہے جو مفلس و لاچار ہیں۔ یہ افراد اگر اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لے لیں ، اگر وہ بڑی تعداد میں بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ کسی بھی قانون کی اطاعت کرنے سے انکار کردیں، ان بنیادی انسانی حقوق میں زندہ رہنے کا حق انتہائی بنیادی نوعیت کا حامل ہے، اگر کمزور خود کو منظم کرلیں اور محدود اور مناسب مقاصد کو اپنائیں اور غیر متشدد اقدامات بروئے کار لائیں تو یہ ایک یقینی امر ہے کہ اس تباہی کو ہماری زندگی میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

ولی خان اسی فلسفۂ سیاست پر یقین رکھتے تھے۔  انھوں نے بھی غریبوں کی وکالت کی اور محروموں کو محرومیوں سے نجات دلانے کی سیاست کی۔ ان کے بعد آنے والے دنوں میں سیاست میں تشدد کی آمیزش میں روز بہ روز اضافہ ہوتا رہا۔ ایک ایسے زمانے میں پُر امن ہونے کی دعوے داری بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل۔ ولی خان ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اس پر عمل کرکے دکھایا، راولپنڈی کے ایک جلسۂ عام میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کے سیاسی کارکن خون میں نہلا دیے گئے تو لوگوں کا خیال تھا کہ اب انتقام کا ایک خونیں سلسلہ شروع ہوجائے گا لیکن ولی خان اپنے لوگوں کو صبر و تحمل اور کسی بھی قیمت پر ہتھیار نہ اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے صوبہ سرحد واپس چلے گئے تاکہ وہاں کوئی انتقامی کارروائی نہ ہوسکے۔

یہ وہ روایت تھی جو ان کے والد نے قائم کی تھی۔ اگست 1948میں جب بانڈہ وانا کے مقام پر ہونے والے جلسۂ عام کے سیکڑوں شرکاء گولیوں سے چھلنی کردیے  گئے تو اس وقت خان ولی خان بھی اپنے والد باچا خان کی رہنمائی میں اس جلسۂ عام میں موجود تھے۔ پشتون روایات کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیکڑوں لاشوں کے جواب میں ہزاروں لاشیں گرائی جاتیں لیکن  پرامن سیاست کا صرف زبانی نہیں، عملی مظاہرہ کیا اور کسی ایک بھی ہلاکت کا انتقام نہیں لیا گیا۔

ولی خان نے پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کی سربلندی کے لیے سیاست کی۔ وہ 1973کے پاکستانی آئین کے خالقوں میں سے ایک تھے انھیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی براہ راست منتخب پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف تھے لیکن ان پر ’’غداری‘‘ کا مقدمہ بنایا گیا اور وہ ایک بار پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے۔ حیدرآباد ٹریبونل کے تحت ان پر اور ان کے دیگر ساتھیوں پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔

مقدمے میں یہ مضحکہ خیز الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ہندوستان کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انھیں کسی ایلچی کے ہاتھوں 2 کروڑ روپے بھی بھیجے تھے۔ ولی خان نے اس الزام کا تمسخر اڑاتے ہوئے اس ایلچی پر دیوانی مقدمہ دائر کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اندرا گاندھی انھیں یہ رقم کیوں بھجوائیں گی۔ یہ رقم انھیں کبھی نہیں ملی انھوں نے الزام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا یہ رقم کہیں ایلچی نے تو نہیں خرد برد کرلی ہے۔

اس دوران ان کے بیٹے اسفند یار ولی خان کو بھی جیل میں رکھا گیا جہاں ان پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا۔ لیکن یہ تمام باتیں ولی خان کو ان کی اصول پرست سیاست سے دور نہیں کرسکیں۔ وہ کئی مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے لیکن 1990 کے الیکشن میں جب انھیں شکست ہوئی تو وہ سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور انھوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ، آخری سانس تک وہ گوشہ نشین رہے۔  ولی خان نے سیاست اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ سیاست ایوان اقتدار میں پہنچنے کا ذریعہ بن گئی ہے ولی خان نے اقتدار کو اصولوں پر ترجیح دی اب ایسے عظیم لوگ کہاں رہے۔

اب بھی وہ لوگ موجود ہوں گے جنھوں نے ولی خان کو تقریرکرتے سنا ہوگا۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا تھا۔ انھیں بلا مبالغہ سیکڑوں اشعار ، کہاوتیں اور لطیفے یاد تھے۔ جن کا استعمال وہ اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہزاروں لاکھوں کا ہجوم ان کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع ہو جایا کرتا تھا۔

ولی خان خواتین کو حقوق دینے کے زبردست حامی تھے۔ جب 1975 میں عبدالولی خان کو حکومت نے گرفتار کیا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی گئی تو ان کی بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ ان کو صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختو نخوا اسمبلی کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ کئی بار عوامی نیشنل پارٹی کی پارلیمانی قائد اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہیں۔ یہ سب ولی خان کی سیاسی تربیت اور حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا۔

اسفند یار ولی نے ایسے وقت میں پارٹی کی قیادت سنبھالی جب وہ دہشت گرد حملوں کی زد میں تھی۔ اے این پی نے کسی بھی سیاسی جماعت سے کہیں آگے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان کی قربانیاں پیش کیں۔ اب اسفند یار صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، ان کے صاحبزادے ایمل اے این پی خیبر پختو نخوا کے صدر ہیں۔ ان کے لیے دادا اور پر دادا جیسا مقام حاصل کرنا تو ممکن نہیں ہوگا لیکن وہ ان جمہوری اصولوں کی سیاست پر کاربند رہ کر ان کی جدوجہد کو آگے ضرور بڑھا سکتے ہیں۔

ولی خان نے دار فانی سے 26 جنوری 2006 کو کوچ کیا۔ ان کو ہم سے رخصت ہوئے 16 برس بیت چکے ہیں۔ انھوں نے ایک حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا جو خواب دیکھا تھا وہ ہنوز ایک خواب ہے۔  ایک زمانہ تھا کہ اصولوں کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کی ایک جگمگاتی کہکشاں ہوا کرتی تھی۔ ولی خان اسی ختم ہوتی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔