توانائی کا بحران …

سرور منیر راؤ  اتوار 10 اپريل 2022

پاکستان آج کل توانائی کے جس بحران سے گزر رہا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ گیس اور بجلی دونوں ہی کم بھی ہیں اور مہنگی بھی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک کا درمیانہ طیقہ اور کاروباری طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔

توانائی کسی ملک کی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کی مثال انسانی جسم سے بھی دی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک جسم میں اگر توانائی کم ہو جائے تو وہ ضعف کا شکار ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر کسی معاشرے اور ملک کے پاس توانائی کے ذرایع (بجلی ،پانی،گیس) کی کمی واقع ہو جائے تو وہ معاشرہ اور ملک اپنا نظام چلانے کے لیے دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے اور اس پر قرضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس طرح ایک لاغر اور کمزور آدمی کو دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح توانائی کے بحران شکار ملک کو بھی دوسروں کا دست نگر ہونا پڑتا ہے۔

پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو توانائی کے حصول کے لیے دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں۔ ہمیں سعودی عرب سے تیل خریدنا پڑتا ہے اور اس پر بھاری زر مبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ سعودی عرب ہمیں ادھار پر تیل دے رہا ہے ورنہ اگر ہمیں نقد ادائیگی کرنی پڑے تو ملک کو مزید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ پاکستان توانائی کے جس بحران سے گزر رہا ہے اس کی وجہ سے ملک کی زرعی اور صنعتی پیدا وار شدید متاثر ہورہی ہے۔

بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے۔ کوئی بھی صنعت اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر رہی کیونکہ اس کی توانائی کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں بہت سی کمپنیوں نے بجلی کا اپنا انتظام کر لیا ہے۔ اس کی جہ سے بھی حکومت کے ریونیو میں کمی آئی ہے جب کہ کمپنیوں کی پیداواری لاگت میں استحکام پیدا ہوا ہے لیکن زیادہ تر فیکٹریاں اب بھی سرکار کی بجلی پر انحصار کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی بجلی اور کبھی گیس کی کمی کا سامنا ہے۔

عام شہری، تاجر، صنعت کار، کسان، طالب علم اور ملازم پیشہ افراد سبھی نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں اور مالی پریشانیوں کا شکار ہیں کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری نے درمیانے طبقے کے مسائل میں حد درجہ اضافہ کیا ہے جب کہ غیریقینی اور پیداواری لاگت کے بڑھنے سے کاروباری اور صنعت کار پریشانی کا شکار ہوئے ہیں۔اگر کوئی طبقہ اس بحران سے متاثر نہیں تو وہ ملک کا حکمران طبقہ یا ایسے افراد ہیں جنھوں نے ملکی دولت کو بد دیانتی اور بد عنوانی سے لوٹا ہے۔

حقیقت یہ ہے ایسے افراد خواہ وہ حکومت میں ہوں یا کسی اور شعبہ زندگی میں جنھوں نے عوام اورملکی وسائل کو لوٹا ہو وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں انتہائی پریشان زندگی گزارتے ہیں، ان کے یہ ایام مختلف بیماریوں اور نیند کی گولیاں کھاتے کھاتے گزرتے ہیں یا ان کی اولاد ایسی حرکتیں کرتی ہے جس سے ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ حلال اور حرام روزی کے تصور سے نا آشنا لوگوں کی زندگی ہم سب کے لیے مقام عبرت ہوتی ہے۔

پاکستان کو توانائی کے بحران کا شکار کیوں ہونا پڑا، اس کا جائزہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بحران کا ذمے دار ہم داخلی اور خارجی کسی بھی صورتحال کو قرار دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے اصل ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔

آج کی حکومت اگر اس کی ذمے دار ماضی کی حکومتوں کو قرار دے تب بھی وہ بری الزمہ نہیں کیونکہ آج کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وزراء اور پارلیمنٹ کے ممبران کسی نہ کسی حکومت میں وزیر، مشیر، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکریٹری یا اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین رہ چکے ہیں، ان میں سے اکثر فوجی حکومتوں کے دور میں سال ہا سال اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے ہیں۔

اگر ہم مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتوں کے اخلاقی قدروں کے پیمانوں سے ماپیں تو ماضی کی روایات ہی پر عمل نظر آئے گا۔ کل کے قاتل اورمقتول اقتدار میں شریک ہیں۔ اس طرح کی سیاست کرنے والوں سے بھلا کہاں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوامی بھلائی کے کسی منصوبے کو ترجیح دیں گے یا ملک سے توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں گے۔ جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کا وطیرہ یہ ہو تو پھر کس طرح سول اور ملٹری بیوروکریسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملکی تعمیر اور عوامی بہبود کو ترجیح دیں۔

قدرت نے پاکستان کو وسیع آبی ذخائر سے نوازا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ذخائر سے ہم 45ہزار میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ان آبی ذخائر سے صرف13فی صد بجلی پیدا کی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک نے آبی ذخائر سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ مصرنے دریائے نیل سے، بھارت نے دریائے ستلج اور بیاس سے اور امریکا نے دریائے کولوریڈو سے بڑی مقدار میں بجلی حاصل کی ہے۔

جرمنی، ترکی ، جاپان اور ایران نے بھی آبی ذخائر سے بجلی حاصل کی ہے۔ چین نے تو تھری گارجز ڈیم بنا کر دنیا کا سب سے بڑا بجلی گھر اپنے آبی ذخائر پر لگایا ہے۔ افسوس کی یہ بات ہے کہ ہم نے غازی بروتھا، سملی اور خانپور ڈیم کی تکمیل کے بعد اب تک کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا بلکہ پرانے ڈیمز، تربیلہ اور منگلہ بھی مٹی کی تہہ جم جانے سے گنجائش کے مطابق پانی ذخیرہ نہیں کر رہے۔ ہمارے شمال مغربی پہاڑی علاقوں اور آزاد کشمیر میں تیز رفتار آبی گزر گاہیں اور اور دریا ہائیڈل پاور کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ یہ بجلی تھرمل بجلی سے انتہائی سستی ہوتی ہے۔

پاکستان میں کوئلے کے دریافت ذخائر 185 ارب ٹن ہیں جب کہ کوئلے سے صرف 200میگا واٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ پاکستان میں موجود کوئلے کی ذخائر سے 18سے 20ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ملک کو انرجی کے بحران سے نکالنے کے لیے متبادل ذرایع اور کثیر الجہتی منصوبہ بندی اختیار کرنی پڑے گی۔ بالخصوص ایٹمی توانائی، پن بجلی اور ہائیڈل پاور کے ذرایع کو متحرک کیے بغیر بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ سے بچنا مشکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔