قومی سلامتی پالیسی کی منظوری

وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان غیرمشروط جنگ بندی کردیں تو مذاکرات کیے جا سکتے ہیں


Editorial February 26, 2014
وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان غیرمشروط جنگ بندی کردیں تو مذاکرات کیے جا سکتے ہیں. فوٹو : این این آئی/فائل

DHAKA: وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیرصدارت منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دیدی گئی۔ بدھ کو یہ مسودہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات یا آپریشن کے معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان غیرمشروط جنگ بندی کردیں تو مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے گروپوں کے خلاف ٹارگٹڈ حملے جاری رکھے جائیں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مذاکرات اور پیدا شدہ ڈیڈلاک کی تفصیلات پیش کیں تو کابینہ کے تقریباً تمام ارکان سرجیکل اسٹرائیکس جاری رکھنے کے حق میں تھے۔

اس موقع پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ طالبان اگر غیرمشروط جنگ بندی کا اعلان کریں تو بات چیت کا سلسلہ وہاں سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے جہاں پر ٹوٹا تھا مگر حکومتی رٹ کو چیلنج اور عام شہریوں، سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کرنیوالوں پر سرجیکل حملے جاری رہیں گے۔ وفاقی کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اگر انتہا پسندوں نے اب جنگ بندی کا اعلان کیا تو انھیں یہ ضمانت دینا ہوگی کہ کوئی بھی گروپ مذاکراتی عمل کو دوبارہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہوئے دہشت گردی نہ کرے اور اگر کوئی گروپ یا گروہ تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کے کنٹرول سے باہر ہے تو انھیں مذاکراتی عمل میں دوبارہ بیٹھنے اور جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے ان کے نام بھی ظاہر کرنا ہونگے۔ ایسے گروپوں کے ساتھ حکومت خود نمٹے گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے فیصلے اور قومی سلامتی پالیسی کی منظوری کے بعد اب یہ حقیقت سامنے آ گئی ہے کہ طالبان کے حوالے سے وفاقی حکومت کسی ابہام کا شکار نہیں ہے' اب یہ تقریباً طے ہے کہ اگر طالبان نے حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا اور غیر مشروط مذاکرات کی طرف نہ آئے اور جنگ بندی کا اعلان نہ کیا تو پھر حکومت کو مجبوراً آپریشن کرنا پڑے گا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان اور چند دیگر علاقوں میں فضائی کارروائی شروع ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی؟ جب وفاقی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ طالبان قیادت ملک میں ہونے والی وارداتوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتی یا مذاکرات کے دوران جنگ بندی کا اعلان کر دیتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا' اس میں قصور کس کا ہے' اس بحث میں پڑے بغیر یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ اگر جنگ بندی ہو جاتی تو آج ملک کی سیاست کا نقشہ کچھ اور ہوتا بہر حال وفاقی حکومت نے ابھی تک مذاکرات کا آپشن ترک نہیں کیا' اس کا مطلب ہے کہ فریقین کے پاس ابھی موقع موجود ہے اور آپریشن کو ٹالا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو اس سے عوام کو مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وفاقی کابینہ نے ریاستوں اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کی سربراہی میں ممکنہ آپریشن کے باعث وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی بحالی کے لیے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ متاثرین کو سہولیات کی فراہمی کے لیے فوری فنڈز جاری کر دیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے ذہن میں آپریشن سے پیدا شدہ نتائج کا پوری طرح علم ہے۔یقیناً فریق مخالف کو اس کا احساس ہو گا' اس لیے اگر وفاقی حکومت اور طالبان چاہیں تو امن کو موقع دیا جا سکتا ہے' اگر قبائلی علاقوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں تو ایسی صورت میں حکومت اور طالبان کو مل کر ایسے عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے۔ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ وفاقی کابینہ نے جس قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی ہے' اس کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کے تین حصے ہیں جس کے ایک حصے کو خفیہ رکھا جائے گا جب کہ ایک حصے میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کی جائیں گی ،انھوں نے کہا کہ ریپڈ رسپانس فورس بھی تشکیل دی جائے گی جو ایمرجنسی کی صورت میں کارروائی کرے گی اور اس کے لیے ملک بھر میں ہیلی پیڈ بھی بنائے جائیں گے۔ریپڈ رسپانس فورس صرف اسلام آباد میں نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں بنائی جائے گی۔انھوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں امریکا سے بھی زیادہ 26 ایجنسیاں اس وقت کام کر رہی ہیں لیکن ان میں تعاون اور رابطہ بالکل زیرو ہے ۔اس کو ایک ایجنڈے پر لائیں گے۔ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان رابطہ اور معلومات کا تبادلہ انتہائی ضروری ہے۔ ایجنسیوں کے درمیان ایسا میکنزم بھی تشکیل دیا جانا چاہیے جس کے تحت دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف بروقت ایکشن ممکن ہو سکے۔ اگر ملک کا انٹیلی جنس نیٹ ورک اور ایکشن کرنے والے ادارے ایک میکنزم کے تحت کام کریں تو ملک کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا سکتا ہے۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وزیر داخلہ کی سلامتی پالیسی کو غیر واضح قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات یا جنگ کے اقدام پر اپوزیشن اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے ،ہم بھی پاکستانی ہیں ملک کے خلاف کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔

اس پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم خورشید شاہ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔قومی پالیسی پر ہماری سوچ واضح ہے ،انھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے اگر کوئی ابہام پیدا ہوا تو اس کو دور کریں گے۔مستقبل میں طالبان کے معاملے اور قومی سلامتی پالیسی کے متعلق اپوزیشن لیڈر اور دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ کسی بھی اچھی تجویز کو قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی جانب سے ہو۔اپوزیشن کو تمام معاملات پر اعتماد میں لیں گے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپوزیشن کے حوالے سے جن جذبات کا اظہار کیا ہے' وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت طالبان کے ایشو اور قومی سلامتی پالیسی پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے رہی ہے' ویسے بھی جمہوری نظام کی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ قومی اہمیت کے فیصلوں میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ موجودہ حکومت جس اسپرٹ سے کام کر رہی ہے' اس سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت' اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے حساس معاملات پر ایک ہی پیج پر ہیں اور ان میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔

مقبول خبریں