سر تسلیم خم ۔۔۔۔۔! حاضری و حضوری، اطاعت و قربانی

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 8 جولائی 2022
دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور مادہ پرستی کا دور ہے جس میں نفرت، تعصب، انتشار، خون ریزی، جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہے
 (فوٹو فائل)

دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور مادہ پرستی کا دور ہے جس میں نفرت، تعصب، انتشار، خون ریزی، جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہے (فوٹو فائل)

خانوادۂ حضرت ابراہیمؑ کی اطاعت الہٰی، ایثار و قربانی اور بے لوث وفاداری کی ادائیں اﷲ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئیں کہ اُن کو قیامت تک کے لیے اہل ایمان کے لیے دُہرانا اور نبھائے چلے جانا لازم قرار پایا۔ وفا کی انہی اداؤں کی پیروی کا نام ’’حج ‘‘ رکھا گیا۔

حج، لاکھوں مسلمانانِ عالم کا عظیم اجتماع دنیا کے کسی بھی ایک مقام پر، ایک خاص وقت میں، انسانوں کا سب سے بڑا، سب سے شان دار اور منفرد اجتماع ہے۔ یہ ایک بے ہنگم ہجوم نہیں جو بلامقصد، بلاوجہ، بے سمت، کہیں بھی، منہ اٹھائے چلا جا رہا ہو، بل کہ یہ ایک ایسا منظم اور بامقصد لشکر ہوتا ہے جو فقط رضائے الٰہی کی خاطر، اپنے گھر بار، اپنے دیس، اپنے پیاروں کو چھوڑ کر، سفر کی مشقّتیں اٹھا کر، پردیس اور اجنبیت کی سرحدیں عبور کرکے، رنگ و نسل اور زبان کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر، دیوانہ وار نذرانۂ جان و تن اور قلب و روح کو خالق اکبر کے حضور پیش کرنے کے لیے ایک مرکز اور ایک مقام پر جمع ہوجاتا ہے۔

ایک گھر کا طواف کیا جاتا ہے اور اُس کے والہانہ پھیرے لیے جاتے ہیں۔ ایک عالم ذوق و شوق، جوشِ و سرشاری کی کیفیت طار ی ہوتی ہے۔ آنکھوں سے بہتے اشکوں میں درد دل کی تڑپ مچلتی ہے، سوزِ قلب احساس و اضطراب کی موجوں میں ڈھل جاتا ہے۔ جبینیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ سر جھکتے ہیں، دل جھکتے ہیں، عجز و نیاز کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔

اس جوش عقیدت، اس والہانہ پن کا راز قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مفہوم: ’’اور اس پاک گھر (بیت اﷲ) کا حج کرنا، لوگوں پر اﷲ (کی محبت، عقیدت اور فداکاری) میں فرض کیا گیا ہے۔ ان پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘

اسلام دین فطرت ہے۔ یہ انسانیت کے لیے خداوندِ کریم کا آخری پیغام اور سب سے بڑا انعام ہے جس کی وضاحت حجۃ الوداع پر نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے، مفہوم: ’’آج ہم نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے انعامات کی انتہاء کر دی اور تمہارے لیے طریقِ حیات کے طور پر اسلام ہی کو پسند فرمایا۔‘‘

حج اس دین کامل کا مظہرِ اتم ہے۔ اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید و رسالت ہے جس کا عملی اظہار حج میں یوں ہوتا ہے کہ سب حجاج جہاں بیت اﷲ، منیٰ مزدلفہ اور عرفات میں توحید الہٰی کا پرچم بلند کرتے ہیں، وہیں بارگاہِ محبوب داور، سید و ختم رسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہوکر اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ آپؐ کی نبوت و رسالت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو بارگاہِ نبوتؐ کی یہ حاضری اہل اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت ﷺ کا برملا اظہار بھی ہے کہ اﷲ کے گھر کی حاضری کے علاوہ صرف مدینہ پاک کی حاضری ہی امت پر واجب کی گئی ہے اور حدیث پاک میں یہاں تک ارشاد ہوا، مفہوم: ’’جس نے حج و عمر ہ کیا اور میری زیارت کو نہ آیا اُس نے مجھ سے جفا کی۔‘‘ اگرچہ متعدد انبیائے کرامؑ کے مدفن دنیا میں موجود ہیں مگر اُن کی زیارت کی تاکید نہیں گئی جب کہ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس کی حاضری کو ناصرف واجب قرار دیا گیا، بل کہ اُس سے برکاتِ کثیرہ کے حصول کی خوش خبری بھی سنائی گئی۔

منجملہ دیگر گراں قدر انعامات کے سرکار رسالت مآب ﷺ کا یہ وعدہ: ’’جس کسی نے ارادہ کرکے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ تو اس شخص سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہوگا جس کی شفاعت لازماً آقائے دو جہاں شافع روزِ محشرؐ فرمائیں۔

حج میں عقیدۂ توحید و رسالت کا اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہی نہیں بل کہ جسم و جاں کی تمام تر قوتوں، استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ آدابِ بندگی کی ادائی بھی ہے، رکوع و سجود اور قیام و قعود بھی، وضو اور غسل بھی، انفاق فی سبیل اﷲ بھی، ہجرت کے سفر کی پیروی بھی اور جہاد بالنفس، جہاد بالمال اور جہاد باللسان بھی ہے۔

’’ حاضر ہوں، حاضر ہوں، اے میرے اﷲ میں حاضر ہوں۔ اے وہ ذات جس کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں، تمام نعمتیں تیری ہیں (تو ہی اُن کا عطا کرنے والا ہے) تمام بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔‘‘

جب حجاج اور زائرین کوہ و صحرا، دشت و جبل، دریا، سمندر اور ہواؤں میں لبیک لبیک کہتے ہوئے کعبۃ اﷲ کی جانب بڑ ھ رہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اﷲ کے حضور حاضری کے لیے بے تاب ہے۔ حاضری اور حضوری کا جو ذوق و شوق اور کیفیات سفرِ حج کے دوران طاری ہوتی ہیں دنیا بھر میں کہیں کسی بھی موقعے پر کسی بھی عبادت کے دوران دیکھنے اور سننے میں نہیں آتیں۔

یہ اسلام اور شارعِ اسلام حضرت رسول الثقلین ﷺ کا فیض اور اعجاز ہے کہ دنیا بھر کے ہر خطے اور ہر ملک، ہر رنگ و نسل کے اور ہر زبان بولنے والے لوگ، ایک ہی لباس، ایک سی وضع قطع میں اور ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں، ایک ہی مقصد لیے اور ایک ہی پکار اپنے ہونٹوں پر سجائے ہوئے۔ لبیک اللھم لبیک۔ یہ یک رنگی، یکسانیت، اتحاد اور یہی یگانگت اسلام کا اصل مقصد اور تعلیمات قرآن و سنت کا اصل مفہوم ہے۔

دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور مادہ پرستی کا دور ہے جس میں نفرت، تعصب، انتشار، خون ریزی، جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہے، رنگ، نسل، زبان اور اقتصادی و گروہی مفادات نے بنی نوع انسان کو تقسیم کر رکھا ہے۔

اس عہدِ ابتلا و آزمائش میں افراد اور قوموں کی نجات ایک ہی مرکز پر جمع ہونے اور اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانے سے ہی ممکن ہے جس کے لیے حج کا عظیم اجتماع ایک سنہری موقع پیش کرتا ہے۔ کاش! بنی نوعِ انسان اﷲ کے اس آخری پیغام اور اُس کے انعامات کی حکمتیں سمجھ پائے۔

نہ جانے صدائے ابراہیمیؑ میں کیا طاقت اور کتنا اخلاص تھا کہ ہر سال اتنے لوگ یہاں حاضر ہوتے ہیں کہ کسی سلطان وقت کے بلاوے پر بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوئی ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے۔

اونٹوں کے دور سے لے کر جہازوں کے زمانے تک زائرین و حجاج کی تعداد ہے کہ برابر بڑھتی چلی جا رہی ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ پر انسانوں کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور یہ محض اجتماع ہی نہیں ہوتا بل کہ بے شمار روحانی اور معاشرتی خوبیوں اور پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے علماء، محققین، سائنس دان، سیاست دان، تاجر، قانون دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ حج کی ادائی کے ساتھ ساتھ اپنے ملکی اور عالمی پیچیدہ مسائل پر افہام و تفہیم کرکے ملتِ اسلامیہ کے لیے بہترین لائحہ عمل بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ حج ایک عالمی اسلامی کانفرنس بھی ہے۔

اتنا بڑا اجتماع کسی قومی فخر کے اظہار اور کسی نسلی عصبیت کے حوالے سے نہیں ہوتا اور نہ ہی وقتی سیاسی ہنگاموں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بل کہ اس عالم گیر اجتماع میں جو شریک ہوتا ہے وہ یہاں زرق برق لباس پہن کر نہیں بل کہ ایک طرح کا کفن اوڑھ کر حاضر ہوتا ہے۔ اس اجتماع میں اپنی شخصی وجاہت کا نہیں ہر لمحہ خطاؤں پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے، تخت نشین خاک نشین بن کر رہتے ہیں۔

حج کے اجتماع میں جو کچھ نظر آتا ہے اگر یہی کچھ امت کا اجتماعی رویہ بن جائے تو فکری و روحانی اور سیاسی و معاشرتی انقلاب دو قدم کے فاصلے پر رہ جاتا ہے۔ امت اگر ہر قدم پر اسی جذبہ عبودیت سے سرشار ہو جس کا مظاہرہ مطاف کعبہ، کوہ صفا، میدان عرفات اور منیٰ و مزدلفہ میں کیا جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت امت کو اپنے دام غلامی میں نہیں پھانس سکتی۔ اسی زرق برق لباس کی بے محابا اور منہ زور خواہش نے عالم اسلام کو تن آسانی کا مریض بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنا من بہت ارزاں گروی رکھنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کفن پر قناعت کرلی جائے تو ذلت سے آدمی کو نجات مل سکتی ہے۔

آج امت کا ایک بڑا روگ شخصی وجاہت کا اظہار ہے جس نے وجود امت کو ریزہ ریزہ اور اسلامی جمعیت و حمیت کو پارہ پارہ کیا ہوا ہے، کسی زمانے میں اسلامی برادریوں کا رنگ الگ لیکن آہنگ ایک تھا۔ جغرافیائی خطے تو تھے مگر دینی رشتے پر استوار، لفظ مختلف تھے مگر معنی مشترک تھے، بول چال اور لہجے میں ضرور اختلاف تھا لیکن چال ڈھال اور رویے میں زبردست اشتراک تھا، حج کے اجتماع میں مختلف رنگوں زبانوں اور علاقوں کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن سبھی ایک ہی رشتۂ بندگی میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

حج کے موقع پر آج تک کسی بھی زمانے میں یہ حادثہ نہیں ہوا کہ کوئی عربی طواف کے دوران کسی عجمی سے کندھا جوڑ کر چلنے میں عار محسوس کرے، کوئی گورا کسی کالے کو اپنے ساتھ نہ لگنے دے، کوئی امیر کسی غریب کے ساتھ ایک صف میں نماز پڑھنے کو آمادہ نہ ہو، کوئی عالم عام مسلمانوں کے عرفات میں قیام نہ کرے اور کوئی شب زندہ دار اور زاہد کسی عاصی و خاطی کی موجودی میں مناسک حج ادا کرنے سے گریز کرے۔

لیکن یہ کیا ہے؟ کہ وہاں سے واپس ہوتے ہی کسی کی عربیت جاگ پڑتی ہے، کوئی اپنے گورے رنگ پر فخر کرتا ہے، کسی کی امارت میں فرعونیت آجاتی ہے، کوئی اپنی علمی برتری کو باقاعدہ صنعت آذری بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ لوگ آئیں اور پوجا کریں اور کوئی اپنی شب بیداری کو با ضابطہ مردم آزاری میں بدل دیتا ہے۔ اگر صفا و مروہ کی دوڑ میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں تو زندگی کی دوڑ میں ہم سب کو شریک کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔۔۔۔ ؟ اگر نمرہ و مزدلفہ میں قیام و سجود ایک ساتھ ہوسکتا ہے تو عام مسجدوں میں ایک دوسرے کا وجود کیوں ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔۔۔۔ ؟

خالق کائنات نے جان انسانی کو تکریم عطا فرمائی ہے۔ اسی نے اس کو احسن تقویم پر پیدا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں کہ انسان کا خون بہایا جائے۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے سار ی زمین کو مسجد بنایا گیا۔ لہٰذا ساری زمین پر امن و سلامتی سے انسانی معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں، مل کر سعی کرتے ہیں اور سب کی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے۔

جب سب کی توجہ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو عزتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جانیں امان میں ہوتی ہیں اور اموال کے نقصان کا ذرا بھی ڈر نہیں ہوتا۔ یہاں سے مومن کامل یہ قانون اخذ کرتا ہے کہ دنیا کے لیے امان توجہ الی اﷲ میں ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا میں ظلم اور بے اعتدالی توجہ ہی کے بھٹک جانے کا نتیجہ ہے اور جونہی توجہ یک سو ہو جائے تو امن و سکون اور اطمینان کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ مومن کی نگاہ بصیرت لباس احرام سے بھی دانائیاں کسب کرتی ہے۔

وہ لباس کی یکسانیت پر غور کرتا ہے کہ ایک جیسے لباس میں امیر و غریب، حاکم و محکوم اور آقا و غلام کی تمیز مٹا دی۔ سب ہی ایک اﷲ کے بندے بن گئے ہیں۔ وہی اﷲ جس کی بندگی میں افتخار ہے۔ اس کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لیے کسرِ شان ہے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کی ازلی و ابدی بادشاہت کے سامنے ہر بادشاہت سر نگوں ہے۔

لباس کی سادگی نے شاہوں میں انکساری اور فقیروں میں اعتماد کی روح پھونک دی ہے۔ اس لباس نے قوم و ملت کا امتیاز ہی ختم نہیں کر دیا بل کہ رسم و رواج کے فرق کو بھی مٹا دیا ہے اور سارے انسانوں کو ایک جیسا بنا دیا ہے۔

یہاں انسان نے اپنے ہاتھوں سے کفن پہن لیا ہے وہ سوچتا ہے کہ ایک روز اسی بدن پر ایسا ہی ان سلا لباس دوسروں نے اپنے ہاتھوں سے پہنانا ہے۔ اس دن دوسرے میرا بدن اٹھائے توحید الٰہی کی شہادت دے رہے ہوں گے۔ آج میں خود اس مالک و خالق کے حضور حاضر ہوں اور اسے پکار کر کہہ رہا ہوں، اللھم لبیک۔ یہ تو غم ہجراں سے گزرنے والے عاشق کی فریاد ہے یہاں لفظ تو علامت کی حیثیت رکھتے ہیں وہ علامت جو جذبۂ اطاعت کی ترجمان ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر لکھا جاتا ہے ہم اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں ؟ اپنے رب کے گھر میں اس سے جو عہد کرکے لوٹتے ہیں اس کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتا ؟ حاجی وہاں آب زم زم کی بوتلوں اور کھجوروں کے ساتھ روحانی نور، وقت کی پابندی، مساوات اسلامی، احترام انسانیت، محبت، انس اور بندگی کو واپس آکر تقسیم کیوں نہیں کرتے ؟ لوگ ایک سا لباس پہن کر سخت گرمی میں طواف کعبہ کرتے ہیں بل کہ اسی طرح جیسے حضرت ہاجرہؓ دوڑی تھیں کیوں کہ ان کا بچہ حضرت اسمٰعیلؑ پیاسا تھا لیکن حاجیوں کے پاس تو پانی کی فراوانی ہوتی ہے اور ان کا بچہ بھی پیاسا نہیں ہوتا تو پھر وہ اس دوڑنے کی منطق کو کیوں نہیں سمجھتے؟ امیر بھی دوڑ رہا ہے۔

، غریب بھی، بوڑھا بھی دوڑ رہا ہے اور جوان بھی، غلام بھی دوڑ رہا ہے اور آقا بھی بل کہ ان راہوں پر خود خاتم النبیین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی دوڑے یہاں پر سب کے ہونٹوں پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے اور سب رحمت الہٰی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر ہم فلسفہ حج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید ہمارے اعمال میں وہ تبدیلی آسکے جس کا ذکر ہم کتابوں میں کئی بار پڑ ھ چکے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی سوچ و فکر کی تبدیلی ہوتی ہے اگر فکر میں انسان سب کو برابر سمجھنا شروع کر دے تو مساوات اسلامی کا سبق ہماری زندگی میں شامل ہو جائے گا اور ہم حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوجائیں گے۔ مساوات کا سبق ہمیں قانون کے احترام کی طرف لے جاتا ہے وہ قانون جس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جو سب کے حقوق کا محافظ ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم فلسفۂ حج سمجھ کر اپنی عملی زندگی کو نظام مصطفیٰ ﷺ میں ڈھالنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ہمیں کسی نئے انقلاب کی ضرورت نہیں بل کہ چودہ صدیاں پہلے آنے والے آفاقی انقلاب کی یادیں پھر سے تازہ ہوجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔