ممی تم کہاں ہو

سعد اللہ جان برق  بدھ 3 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

جس طرح ازخود نوٹس لیے جاتے ہیں، اسی طرح ’’ازخودججمنٹ‘‘کابھی ایک سلسلہ ہے جو ہم نے اپنے لیے ازخود وضع کیاہواہے چنانچہ ہم سال بھرکی خبروں، تبصروں، ٹاک شوز،ڈراموں اوراشتہارات پر نظر ڈال کر اورپھر غورکے حوض میں غوطے لگا کرنمبرون کافیصلہ کرتے ہیں چنانچہ اس سال بلکہ گزشتہ بیس سال کے عرصے میں نشرہونے والے اشتہارات کی ازخود ججمنٹ کرکے ایک اشتہارکو نمبرون کاٹائٹل دیاہے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں، یقیناً آپ بھی اس اشتہارکو نمبرون قراردیںگے، پڑوسی ملک بھارت کے چینلز پر یہ اشتہارکثرت سے آرہاہے۔

منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ  آٹھ دس سال کا بچہ بستر پر لیٹا ہواکراہ رہاہے، کھانس رہا ہے اورممی ممی پکاررہاہے، ا س کاباپ بسترپر اس کے ساتھ بیٹھا ہوا،کبھی بچے کا سینہ ملتاہے، کبھی سردباتاہے اور کہتا ہے، بیٹا سوجاؤ، سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن بچہ ممی ممی کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ آخر تنگ آکرباپ موبائل فون پر نمبرگھماتاہے، اسکرین پر ایک خاتون کسی فورس کی وردی میں دکھائی دیتی ہے اورپوچھتی ہے، کیا بات ہے؟شوہر بتایا ہے، لو! پپو سے بات کرو، پھر فون بچے کے سامنے کرکے کہتاہے، بیٹا، ممی سے بات کرو۔

بچہ خوش ہوکر ممی ممی کہتاہے، تم کہاں ہوممی؟ ممی کہتی ہے، میں ڈیوٹی پرہوں، بچہ کہتاہے، آجاؤنا ممی۔ ممی کہتی ہے، صبح تک آجاؤںگی، بیٹا۔اب تم آرام کرو، پھرشوہرسے کہتی ہے، اس کے ماتھے اورسینے پر بام لگاؤ۔

اشتہارتو اس ’’بام‘‘کاہے لیکن اس میں ترقی کا وہ بام بھی دکھائی دیتاہے جس پر عورت بلکہ ’’ماں‘‘پہنچ چکی ہے اوروہ آج کافیورٹ ’’سچ‘‘ ثابت کررہی ہے کہ ’’عورت‘‘کتنی ترقی کرچکی ہے لیکن اس اشتہارمیں وہ اصل بات یاحقیقت کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتی کہ عورت تو مرد سے آگے بھی بڑھ گئی، اونچی بھی ہوگئی ہے، سارے میدان بھی جیت چکی ہیں لیکن اس کے اندر جو ’’ماں‘‘تھی وہ کھوگئی ہے ۔

صدیوں تک باہرپھر پھر کر اورہرقسم کی صورت حال کاسامنا کرنے والے ’’مرد‘‘ دماغ اورجسم کے ’’کثرت استعمال‘‘ سے ارتقائی منازل طے کرتاہوا ہر لحاظ سے ’’مضبوط ‘‘ہوتا چلاگیا ورنہ ایک زمانہ تھا کہ عورت ہی بالادست اورسربراہ تھی ۔لیکن پھر اولاد کے سلسلے میں وہ گھر کی محدود چاردیواری میں محدود ہوتی چلی گی۔ پھر مرد نے اسے آزادی‘ برابری برتری کے سراب دکھا کراسے گھر سے باہر نکل کرجدوجہد روز گار پر لگا دیا  اوروہ خوشی خوشی لگ بھی گئی ۔

چالاک مرد نے اب اپنا بوجھ بھی، اس پر دھردیا۔پیدائش کے بعد بچے کی ضروریات دوقسم کی ہوتی ہیں، ایک اس کی جسمانی ضروریات، کھاناپینا، پہننا یعنی روٹی کپڑااورمکان۔جو اس کی جسمانی ضروریات ہیں اوریہ مادی یاجسمانی ضروریات پوری کرنا ’’باپ‘‘یامرد کی ذمے داری ہوتی ہے، یہ مرد کافرض ہے کہ وہ جیسے بھی کرکے کمائے لائے اوربچے اورماں کو کھلائے جب کہ عورت یاماں کی ذمے داری اس بچے کی باطنی یااندرونی تعمیرہے، اسے سکھانا اوراس کی اندر ’’انسان‘‘پیداکرنا جو مرد سے زیادہ اہم اورسخت ذمے داری ہے ۔

جسمانی ضرورت کے کچھ اورذرایع بھی ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں جسے بڑی جائیداد،امارت اور خوشحالی۔بھی وہ ضروریات پوری کرسکتی ہیں جو مرد کے ذمے ہیں یایوں کہے کہ بچہ بن باپ یا یتیم ہونے کی صورت میں بھی جسمانی طورپر پل سکتاہے ،کوئی اور رشتے دار،دادا،نانا چچا،ماموں بھی اس کی جسمانی پرورش کر سکتاہے لیکن ’’ماں‘‘کی ذمے داری صرف ماں اورماں ہی پوری کرسکتی ہے۔

کوئی نوکر،چاکر ،دایا،نوکرانی یہ کام نہیں کرسکتے کہ یہ بڑی نازک ذمے داری ہے جو صرف ایک ماں اوراس کی مامتاپوری کرسکتی ہے اورقدرت نے بھی ’’ماں‘‘کے اندر وہ کچھ ڈال اورپیداکیاہے جو بچے کی اندرونی تعمیرکے لیے ضروری ہے، نو مہینے یہ اپنے خون پر پالتی ہے، پھر دودھ، پھر گود اورپھر اس کو سب سکھانا۔ اوردورجدید کے چالاک مرد نے سادہ دماغ عورت کو خوش نمانعروں اورالفاظ کے ذریعے ہیپناٹائز کرکے اپنی ذمے داری بھی اس پر ڈال دی ہے، اسے ایسے رنگ برنگے باغ دکھائے کہ وہ خود ہی کمائی کے لیے نکل پڑی اورکمائی کے ہرکام میں اپنی حیثیت پر نازاں ہے۔

ٹھیک ہے یہ بھی آزادی کی بانسری پر خوش،مرد بھی خوش کہ نہ صرف اسے کمائی کاذریعہ یااپنی مددگاربھی بنالیااوراپنے اردگرد ’’رونق شونق‘‘ بھی بڑھا دی لیکن اس معصوم بچے کاکیا ہوا جس سے ماں چھین لی گئی، اوپر ے دودھ، نوکروں، نوکرانیوں اورپھر مخصوص درس گاہوں میں جب وہ پلتا بڑھتاہے تو وہ بھی صرف کمائی کی مشین بن جاتاہے لیکن اندر سے خالی رہ جاتاہے، وہ  ڈاکٹر،انجینئر،استاد، افسر اورسب کچھ تو بن جاتاہے لیکن انسان نہیں بنتا، پھر ہم کہتے ہیں، انسان میں ’’انسانیت‘‘ نہیں رہی ،رہے بھی تو کیسے کہ انسان بنانے والی ماں کو توآپ نے ’’کماؤ‘‘بناڈالاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔