لیگی ارکان کے پنجاب اسمبلی میں داخلے پر پابندی کا کیس جلد سننے کی درخواست

ویب ڈیسک  بدھ 30 نومبر 2022
سماعت میں تاخیر سے انصاف کو شکست ہونے کا خدشہ ہے، درخواست میں مؤقف (فوٹو فائل)

سماعت میں تاخیر سے انصاف کو شکست ہونے کا خدشہ ہے، درخواست میں مؤقف (فوٹو فائل)

 لاہور: مسلم لیگ ن کے ارکان پنجاب اسمبلی کے ایوان میں داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردی گئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق رانا مشہود سمیت دیگر کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب اور اراکین اسمبلی کے داخلے پر پابندی کے خلاف درخواست کی جلد سماعت کے لیے متفرق درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواستیں 27 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔ 16 نومبر کو 2 رکنی بینچ نے درخواستیں سماعت کے لیے سنگل بینچ کو بھجوا دیں۔

لیگی رہنماؤں کی جانب سے دائر متفرق درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کیس کے سلسلے میں سماعت میں تاخیر سے انصاف کو شکست ہونے کا خدشہ ہے ، لہٰذا استدعا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ مرکزی درخواستوں کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے۔

پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کو گجرات کی ضلع کونسل کی طرح چلا رہے ہیں، عطا تارڑ

دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ کے باہر وزیراعظم کے معاون  خصوصی عطا تارڑ سمیت دیگر لیگی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کی۔ اس موقع پر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں 18 ارکان صوبائی اسمبلی کے ایوان میں داخلے میں معطلی کا کیس جلد سماعت کرنے کی درخواست دائر کررہے ہیں کیوں کہ صوبے کی اسمبلی تحلیل ہونے کا خدشہ موجود ہے ۔ ایسی صورت میں کسی بھی ایم پی اے کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ۔

یہ خبر بھی پڑھیں: وزیراعظم پنجاب اور کے پی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کیلیےمتحرک ہوگئے

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے درخواست کریں گے کہ ہمارا کیس سنا جائے ۔ ہمارا 2 دن سے مشاورتی عمل جاری تھا ۔ تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی گئی ہے ۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے خدشے کے بعد یہ معاملہ اب اہم نوعیت کا ہے ۔ پرویز الٰہی اسمبلی کو ایسے چلا رہے ہیں جیسے گجرات کی ضلع کونسل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نوبت یہ نہ آئے کہ معاملہ سڑکوں پر ہو۔

عدلیہ کا احترام مگر ہمارے حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذمے داری ہے، عظمیٰ بخاری

لیگی رہنما عظمی بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نمبر کم کرنے کےلیے ہمارے ارکان کو معطل کیا جاتا ہے ۔ اسپیکر رولز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ہم بارہا گزارش کرتے ہیں، مگر ہماری درخواست پر سنوائی نہیں ہوتی۔ ہم عدلیہ کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں مگر ہمارے حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذمے داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی تحلیل معاملہ؛ لیگی اراکین کو فوری طور پر لاہور پہنچنے کی ہدایت

پنجاب اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی کیلیے مسلم لیگ ن کو دہری مشکلات کا سامنا

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے دہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ن لیگ کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 186 ارکان کی ضرورت ہے، جب کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے 18 لیگی ارکان اسمبلی معطل کر رکھے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے 18 ارکان پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے۔ اسپیکر کے اس اقدام کے خلاف مسلم لیگ ن کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔  اسمبلی ذرائع کے مطابق رولز آف پروسیجر کے تحت وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ن لیگ کے 18 ارکان اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت نے وزیر قانون کو عہدہ سنبھالتے ہی بڑا ٹاسک دیدیا

مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد تاحال پیش نہ ہونے میں رکاوٹ معطل ارکان ہی ہیں، جن میں صبا صادق،راحیلہ خادم حسین،ربیعہ نصرت ،رابعہ فاروقی،زیب النسا اعوان،ذیشان رفیق، میاں عبدالرؤف،سمیع اللہ خان،ملک عبدالوحید، کنول لیاقت ایڈووکیٹ،گلناز شہزادی ،نفیسہ امین،محمد افضل ،عادل بخش،سعدیہ ندیم ،راحت افزا اور سنبل مالک حسین شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ن لیگ نے آئینی راستہ نکالنے کے لیے قانونی ماہرین سے رجوع کر لیا، جن کی رائے کی روشنی میں مسلم لیگ ن اگلا قدم اٹھائے گی۔

یہ خبر بھی پڑھیں: عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اعلان آئندہ ہفتے کریں گے

یاد رہے کہ پنجاب میں حکومتی اتحاد کو 190 کے ہندسے پر برتری حاصل ہے ۔371 کے ایوان میں تحریک انصاف کے 180 ارکان ہیں جب کہ پی ٹی آئی کو مسلم لیگ ق کے 10 ارکان کی حمایت ملی ہوئی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کو 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔