منفرد ومعتبر صحافی،نادر شاہ عادل

شبیر احمد ارمان  جمعـء 23 دسمبر 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ہر دل عزیز صحافتی شخصیت نادر شاہ عادل کی مزاج پرسی کے لیے ہم مداحوں نے، جن میں راقم العروف ، خورشید احمد ، بشیر سدو زئی ، اطہر اقبال ، زینت بلوچ ، رمضان بلوچ اور برکت ملک رئیسی شامل تھے ،گزری میں واقع ان کے گھر میں ملاقات کی۔

فردا فردا ہم سب نے شاہ جی کی خیریت دریافت کی ، حسب روایت انھوں نے چہرے پرمسکراہٹ لاتے ہوئے ہم سب سے ہاتھ ملایا۔ گزشتہ دنوں شاہ جی ، طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے دو دن تک لیاری جنرل گورنمنٹ اسپتال میں زیر علاج رہے ،باقی علاج ومعالجہ گھر پر جاری ہے ۔ اس ملاقات میںانھوں نے نقاہت کی وجہ سے مدہم آواز میں اپنی بیماری اور کچھ یادوں کا تذکرہ کیا۔

ممتازسینئر صحافی نادر شاہ عادل گزشتہ 45سال سے صحافتی میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔گزرے تقریبا بیس برس سے روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ تھے اور کراچی میں بطور انچارج ادارتی صفحہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ اس دوران انھیں بیماری نے آن گھیرا ،جس وجہ سے ان کی ملازمت بھی برقرار رہ نہ سکی ۔

نادر شاہ عادل 23اپریل 1950 میں کراچی کے قدیمی علاقہ لیاری میں پیدا ہوئے ۔شاہ جی کے نانا سید ملنگ شاہ لیاری میں روحانی بزرگ کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

شاہ جی کے والد سید اسرار عارفی بھی اپنی صحافتی ،سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے علاقے کی معروف شخصیت تھے ، شاہ جی کی والدہ بانل دشتیاری بلوچی زبان کی پہلی شاعرہ تھیں جن کا باقاعدہ دیوان مرتب ہوا۔

ان کا خاندان لیاری میں خاص سماجی اہمیت کا حامل ہے ،اسی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے بھائی امداد علی شاہ رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے ۔شاہ جی نے 1970 کی دہائی میں لیاری کے سلگتے ہوئے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ایک کتاب بعنوان’’ لیاری کی کہانی‘‘ لکھی جسے بے حد سراہا گیا ۔

یہ کتاب باتصویر تھی ۔شاہ جی لیاری میں اسٹریٹ اسکول کے بانی ہیں، انھوں نے ہی سب سے پہلے اپنے جنم بھومی علاقے سیفی لین بغدادی میں اسٹریٹ اسکول کی بنیاد رکھی، جو بمباسا کے نام سے منسوب تھا ،جس کے بعد لیاری بھر میں اسٹریٹ اسکولوں کا جال پھیل گیا، جہاں بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت مفت تعلیم دی جاتی رہی ہے پھر بدنام زمانہ لیاری گینگ وار نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا ۔

شاہ جی نے اپنی 45سال پر محیط صحافتی سفر میں نوائے وقت ،امروز ، خبریں، ایکسپریس، اخباروطن ، فلم ایشیا سمیت متعدد اخبارات و جرائد میں صحافتی خدمات سرانجام دیں،ساتھ ہی کالم نگاری بھی کرتے رہے ۔شاہ جی کی تحریروں میں حق و سچ کی کاٹ نمایاں نظر آتی ہے، وہ اس سچائی کی قیمت بھی چکاتے رہے ہیں ۔

جب شاہ جی ایک موقر اخبار سے بطور رپورٹر وابستہ تھے ،تو ان کی تیارکردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کو سنسر شپ سے اس طرح گزارا کہ سچ کہیں گم ہوگیا جس کے جواب میں شاہ جی نے اخبار کو خیر باد کہہ دیا ۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نادر شاہ عادل اسٹیج اور فلم کے اداکار بھی رہے اور اسکرپٹ رائٹر بھی ۔ انھوں نے متعدد بلوچی اور اردو کے اسٹیج ڈرامے لکھے اور ان میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ۔پہلی بلوچی سینما فلم’’ ھمل و ماہ گنج ‘‘میں بطور سیکنڈ ہیرو اہم کردار ادا کیا ۔شاہ جی شاعر بھی ہیں اور بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے علاوہ بچوں کے لیے نظم نگاری بھی کرتے رہے ہیں ۔

ایسے شاندار صحافتی ادبی اور سماجی پس منظر کا حامل فرد جسے معاشرے میں عزت واحترام حاصل ہو اور وہ جس نے ہمیشہ بلوچ بچوں اورنوجوانوں میں علم کی شمع روشن کی ہو، اسے سچ گوئی کی پاداش میں کئی نشیب و فراز سے بھی گزرنا پڑا ۔

ماضی قریب میں جب لیاری میں گینگ وار جاری تھی اور شاہ جی اپنے کالمز کے ذریعے حقائق کا تجزیہ غیرجانبداری سے پیش کررہے تھے تو ایک شام سادہ لباس میں ملبوس اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے ،اس اچانک پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث ان کے گھر والے گھبرا گئے انھوں نے اہلکاروں سے پوچھا کہ ’’ہمارا کیا قصور ہے ؟ ‘‘، جس پر اہلکاروں نے کہا تھا کہ ہم کو اوپر سے حکم ملا ہے کہ نادر شاہ عادل کے گھر کی تلاشی لو ،یہاں پر دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں ،ان کے چھوٹے سے گھر میں سرکاری اہلکاروں نے ایک گھنٹے سے زائد اہل خانہ کو محصور رکھا ۔

اس کے کچھ عرصے بعد لیاری گینگ وار کے ایک کمانڈر راشد ریکھا کے کارندوں نے نادر شاہ عادل کے بیٹوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنایا گیا۔

اس دل خراش اور شرمناک واقعے نے شاہ جی کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ دل گرفتہ ہوکر لیاری کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اورکراچی کے علاقے گزری میں جابسے ۔ ان واقعات کے بعد ان کے دل کی دنیا ہی بدل گئی اب وہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں ۔

شاہ جی اصول پسند، خوددار انسان ہیں ،نام نمود سے اجتناب برتے ہیں ، سادگی ان کی پہچان ہے ۔ ان کی یہی خوبیاں انھیں دوسرے لوگوں سے منفرد بنادیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ صحافتی دنیا میں انھیں جو عزت و توقیر حاصل ہے وہ کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے ۔ اللہ پاک انھیںصحت وتندرستی اور درازی عمر عطا فرمائے ۔(آمین )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔