شہباز شریف کی معقول تجویز

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 25 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم شہباز شریف نے العربیہ ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے متحدہ عرب امارات سے استدعا کی ہے کہ یو اے ای کے حکمراں بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کردار ادا کریں۔

میاں شہباز شریف نے انٹرویو لینے والی صحافی خاتون سے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے وزیر اعظم ایک میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔

میاں شہباز شریف کے اس انٹرویو کے نشر ہوتے ہی تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ’’ شہباز شریف کو ہماری خارجہ پالیسی سے انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، جب تک بھارتی حکومت کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کو واپس نہیں لے گی بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے ، شہباز شریف کو کشمیر فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

وزیر اعظم ہاؤس سے وضاحت جاری کی گئی کہ موجودہ حکومت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں بھارت سے تعلقات کے بارے میں بنیادی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

وزیر اعظم ہاؤس کی تردید کے باوجود میاں شہباز شریف کی بھارت سے مذاکرات کا معاملہ شروع کرنے کی تجویز ایک عقل کی بات ہے اور پاکستان کے مفاد میں یہ انتہائی مناسب تجویز ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس تجویز کو ماضی کی تاریخ ، ملک میں جمہوری نظام کی بالادستی اور پاکستان کے اقتصادی بحران کے تناظر میں غور کرنا چاہیے۔

پاکستان اور بھارت گزشتہ صدی کے وسط میں آزاد ہوئے، کچھ دنوں بعد کشمیر کا تنازعہ کھڑا ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان تین بڑی جنگیں اور چار کے قریب چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوچکی ہیں۔

پہلی لڑائی 1948 میں ہوئی، دوسری لڑائی 1965میں ہوئی۔ 1965 کی لڑائی کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔

ایک طرف ملک کے اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان کے عوام کو اندازہ ہوگیا کہ راولپنڈی کی حکومت مشرقی پاکستان کا دفاع نہیں کرسکتی، صرف مشرقی پاکستان کا استحصال کرسکتی ہے۔

دسمبر 1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ پر بنگلہ دیش بن کر ابھرا۔ پاکستانی فوج کے 90 ہزار فوجی قیدی بن گئے۔

بھارت نے مغربی پاکستان کے 80 ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کرلیا۔ 1965کی جنگ کے بعد سوویت یونین نے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لعل بہادر شاستری کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں مدعو کیا اور بھارت اور پاکستان معاہدہ تاشقند پر متفق ہوئے مگر تاشقند معاہدہ پر دستخط کے بعد رات کو بھارتی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری انتقال کرگئے۔

وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے خلاف مہم چلائی کہ معاہدہ تاشقند کے تحریری ڈرافٹ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا ہے وہ مناسب وقت پر اس خفیہ معاہدے کو افشا کریں گے ، مگر بھٹو اپنا یہ وعدہ نبھا نہیں سکے۔

1971 کی جنگ کے بعد صدر ذوالفقار علی بھٹو شملہ گئے اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو شملہ معاہدہ کہلایا۔ اس معاہدہ کے تحت بھارت نے پاکستانی فوجیوں کو رہا کیا اور مغربی پاکستان کے علاقوں سے فوجیں واپس بلا لیں، یوں معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ میں کوئی فرق نہ تھا۔

شملہ معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے درمیان افسروں کی سطح ، وزرائے خارجہ کی سطح اور وزرائے اعظم کی سطح تک مذاکرات کا ایک طریقہ کار طے ہوا۔ بعد میں برسراقتدار آنے والی دونوں ممالک کی حکومتوں نے اس طریقہ کارکی پاسداری کی۔

جنرل ضیاء الحق نے بھارت کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی شروع کی، وہ غیر جانبدار ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔

بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں وزیراعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے۔ میاں نواز شریف کے مختلف ادوار میں اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی نے لاہورکے دورے کیے۔

سابق صدر پرویز مشرف آگرہ گئے اور وزیر اعظم واجپائی سے مذاکرات کیے مگر Cross border terrorism پر اتفاق نہ ہو سکا ۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد کنٹرول لائن سے جہادی جنگجوؤں کو منتشر کیا گیا۔

کارگل پر لڑائی ہوئی، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو واشنگٹن جانا پڑا۔ صدر کلنٹن نے وزیر اعظم واجپائی کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی مگر واجپائی نے واشنگٹن آنے اور نواز شریف سے ملاقات سے انکار کیا۔

صدر کلنٹن نے واجپائی کو ٹیلی فون پر معاہدہ کی تفصیلات مہیا کیں اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت سے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چھ تجاویز پیش کیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے افسر جنرل مشرف کی پیشکش کو فوری طور پر سمجھ نہ سکے۔

سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب “Neither a hawk nor a dove” میں لکھا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت اور بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے مگر پاکستان میں وکلاء تحریک کی بناء پر پرویز مشرف حکومت دباؤ کا شکار ہوئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان امریکا گئے اور اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے عزم کا اظہار کیا ، جس کے بعد مودی حکومت نے بھارتی یونین کے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔

گزشتہ صدی میں بھارتی حکومتوں کے اقدامات کے نتیجے میں بھارتی معاشرہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے80ء کی دہائی میں بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو عام کیا ، یہ وہ وقت تھا جب  پاکستانی حکمران سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ سے کروڑوں ڈالر کما رہے تھے۔

یوں بھارت میں تعلیم کی شرح بڑھنے، خواتین کی زندگی کے ہر شعبہ میں شامل ہونے اور مضبوط صنعتی ڈھانچہ کی بناء پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک نیا متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا متوسط طبقہ بھارت کا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپی کمپنیوں کے لیے بھارت کا متوسط طبقہ ایک اہم مارکیٹ بن گیا۔ بھارتی نژاد شہری ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔

پاکستان کے قریبی دوست ممالک سعودی عرب اور یو اے ای بھارت کے قریبی دوست بن گئے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کرنے کے فیصلہ کے خلاف مہم چلائی مگر یہ مہم ناکام ثابت ہوئی۔ بھارت سے تجارتی تعلقات ختم ہونے کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔

ملک کی تاریخ پر نظر رکھنے والے سینئر ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور فواد چوہدری سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمہ پر زور دیتے ہیں مگر اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ہی بنیادی وجہ ہے اور بھارت سے تنازعہ کی وجہ سے پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ بنا ہے۔

سیکیورٹی اسٹیٹ سے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف سفر کے لیے بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات معمول پر لانا ضروری ہے۔

ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی دفاعی اخراجات سمیت تمام غیر پیداواری اخراجات کم کرنا ضروری ہے۔ عمران خان اور فواد چوہدری جذباتی نعرے لگا کر ڈیپ اسٹیٹ کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی حکومت کو بھارت سے مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔