ہمارے بہادر قومی رہنما

ضیا الرحمٰن ضیا  پير 13 مارچ 2023
دونوں کے چاہنے والے اپنے اپنے رہنما کو سچا اور بہادر تسلیم کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دونوں کے چاہنے والے اپنے اپنے رہنما کو سچا اور بہادر تسلیم کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے اندر شخصیت پرستی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ کوئی شخص جب کسی کو اپنا رہنما تسلیم کرلے تو پھر وہ اس کو کسی صورت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا اور اس کی تعریفوں کے پل باندھتا رہتا ہے، اس کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چاہے لیڈر اچھا کرے یا برا، ہر حال میں ہم نے لیڈر کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ ہم حقائق کے برعکس رہنماؤں کی ہر بری بات کو بھی اچھا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر نے جو کہہ دیا بس وہی حرف آخر ہے، اب اس پر کوئی تنقید تو کرکے دکھائے۔ ہم اپنے لیڈر کے خلاف ایک حرف بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ نہ حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیڈر کی کسی بات کی تحقیق کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔

ہماری حالیہ سیاست میں دو بڑے رہنما ہیں، ایک نواز شریف اور دوسرے عمران خان۔ دونوں کے چاہنے والے اپنے اپنے رہنما کو سچا اور بہادر تسلیم کرتے ہیں لیکن حقائق کچھ اور ہیں۔ نواز شریف کو آپ دیکھیں تو وہ لندن میں جاکر بیٹھے ہیں اور چار سال کا عرصہ ہونے کو ہے وہ وطن واپس آنے کا نام نہیں لے رہے۔ ایک بار انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ گرفتاری دے دی، بس یہی ثبوت ان کی بہادری کےلیے کافی ہے۔ اس کے بعد وہ ریلیف لے کر باہر بھی چلے گئے مگر ان کی بہادری پر کوئی آنچ نہ آئی۔ اس کے بعد اب چار سال کے قریب عرصے میں وہ وطن واپس نہیں آئے۔ ملک کےلیے نہ سہی کم از کم اپنی جماعت کےلیے ہی واپس آجاتے جو پنجاب کے انتخابات میں بری طرح پِٹ رہی ہے۔

ان کی جماعت کے رہنما یہاں پر تاریخیں دے دے کر تھک چکے ہیں۔ وہ ہر مہینے قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ اب نواز شریف واپس آئیں گے۔ فلاں تاریخ یا فلاں مہینے تک آجائیں گے لیکن وہ تاریخ اور مہینہ بھی گزر جاتا ہے اور لوگ نواز شریف کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگلی تاریخ آجاتی ہے۔ اب تو ان کی جماعت کی حکومت کو بھی ایک سال مکمل ہونے والا ہے لیکن وہ اس کے باوجود وطن واپس نہیں آرہے کیونکہ ان پر بڑے بڑے کیسز بنے ہوئے ہیں اور انہیں کافی طویل سزائیں سنائی گئی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ واپس آکر اپنے مقدمات کا سامنا کریں، مقدمات ختم کروائیں لیکن وہ واپس پھر بھی نہیں آرہے اور بہانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ بیمار ہیں، انہیں ڈاکٹر اجازت دیں گے تو واپس آئیں گے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیسے ڈاکٹر ہیں جو انہیں یورپ کی سیر کی اجازت دیتے ہیں لیکن وطن واپس آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بہرحال یہ تو ایک بہادر لیڈر کی کہانی ہے۔ رہنما مسلم لیگ ن مریم نواز نے کہا ہے کہ میں نواز شریف سے کہوں گی کہ تھوڑی سی بہادری عمران خان کو بھی دے دیں۔ اگر یہ بہادری ہے تو وہ ان کے پاس پہلے ہی بہت ہے۔

عمران خان کی بہادری کی بات کی جائے تو وہ پہلے بنی گالہ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے لیکن جب وفاق میں ان کی حکومت ختم ہوئی اور ان پر کیس بنے تو انہوں نے پنجاب میں جب ان کی حکومت تھی وہاں پناہ لے لی اور مقدمات سے بچنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب پنجاب میں بھی ان کی حکومت ختم ہوگئی تو انہوں نے کارکنوں کے حصار میں پناہ لے رکھی ہے۔ جب پولیس ان کے پاس جاتی ہے اور انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ کہیں غائب ہوجاتے ہیں اور کارکنوں کو کال کردیتے ہیں۔ وہ سب ڈنڈے لے کر جمع ہوجاتے ہیں اور مار کھاتے ہیں لیکن یہ بہادر لیڈر اپنے گھر کے اندر کسی کونے میں چھپ جاتا ہے۔ عدالتیں بلاتی رہ جاتی ہیں اور یہ اپنے مقدمات کی پیروی کرنے کےلیے عدالتوں میں نہیں جاتے اور مقدمات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کبھی بیماری کا بہانہ، کبھی زخمی ہونے کا بہانہ، کبھی بڑھاپے کا بہانہ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ پولیس اور مقدمات کا سامنا نہیں کرسکتے۔ ان کی بہادری بھی اتنی ہی ہے۔ لیکن ان کے کارکن بھی ان کی بہادری پر ذرہ برابر شک نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو ان کی بہادری کے خلاف بولنے دیتے ہیں۔

قوم کو چاہیے کہ وہ سچ اور حقائق کو جان کر چلیں۔ کسی رہنما کےلیے خود کو اس قدر اندھا مت کریں کہ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر ہی اس کے پیچھے چلتے رہیں۔ اپنی آنکھیں کھولیں اور سوچ سمجھ کر کسی کی اقتدا کریں۔ یہ تمام سیاستدان ذاتی مفادات کےلیے سیاست کرتے ہیں اور ذاتی مفادات کےلیے عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ جب حکومت بنانے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈے کھانے والے کارکنوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اس وقت محلات میں مزے لوٹنے والے وڈیروں اور سرمایہ داروں کو ٹکٹ دے دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی اس قدر طرف داری نہ کریں کہ اپنا اور اپنے ملک کا ہی نقصان کر بیٹھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔