بھارت میں اردو اور ’ ہم‘ اردو والے!

ندیم صدیقی  جمعـء 24 مارچ 2023

گزشتہ دسمبر میں بھارت کے مشہور ادارے ’’ریختہ ‘‘ کا سَہ روزہ جشن دہلی میں منایا گیا، جس میں شرکت کے لیے ایک شرط لازمی تھی کہ ہر خواہشمند کو آن لائن رجسٹریشن کرانا ہوگا، چونکہ ہم اس جشن میں ’ریختہ ‘ کے مہمان تھے تو جو کچھ بیان کریں گے وہ سنی سنائی نہیں بلکہ ہمارا مشاہدہ ہوگا۔ جشن ریختہ کئی برس سے خاصے بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔

اس کے ذمے داران نے بتایا کہ دو لاکھ شائقین نے شرکت کے لیے نہ صرف رجسٹریشن کروایا بلکہ باقاعدہ جشن گاہ کے باہر مختلف دروازوں سے لائن لگا کر جشن گاہ میں داخل ہوئے۔ یہ آنکھوں دیکھی ہے کہ کوئی ایک فرلانگ سے زاید فاصلے تک لوگ قطار لگائے اپنی باری کے منتظر تھے جن میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔

اس دو لاکھ کی تعداد میں دہلی جیسے شہر کے، جسے اردو اور اردو والوں کا مرکز کہا جاتا ہے، ہم مسلمان اردو والے اس جشن میں پچیس فیصد بھی نظر نہیں آئے۔ شرکا میں اکثریت بیشتر ان غیر مسلم نوجوانوں کی تھی جنہوں نے اپنے بزرگوں سے اردو سنی ہوگی۔

اس جشن ریختہ میں اردو زبان اور شعر و ادب کے ہر شعبے کے پروگرام بیک وقت تین تین ڈائس پر ہو رہے تھے، یعنی ایک وقت میں تین چار پروگرام اور اس میں متعلقہ موضوع کے ماہرین مدعو تھے۔

ہم یہاں جشن ریختہ کے چار عنوانات (محفل خانہ ، بزمِ خیال ، دیارِ اظہار اور سخن زار) کے ساتھ کم از کم پانچ ذیلی عنوانات الگ تھے (شاعری پاٹھ شالہ، اردو صحافت کے دو سَو سال، ادب کیوں اور گانے والی: ٹھمری، دادرا اور غزل) یہ تو ہم نے ایک چٹکی بھر نمونہ بیان کیا ہے۔

کتابوں پر بحث و مباحثہ کے لیے الگ ڈائس تھا اور کتابوں کے اسٹال جس میں خود ریختہ والوں کا وسیع اسٹال تھا جس میں ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی دیگر بک اسٹالز کا بھی کم و بیش یہی حال تھا، ایک اسٹال خطاطی کا بھی نظر آیا جہاں لوگ اردو خوشخطی میں اپنے نامِ نامی اسم گرامی رقم کروا رہے تھے۔

ریختہ عالمی سطح پر معروف و مقبول ادارہ ہے جس سے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ پر اردو ادب سے مستفیض ہونے والوں کی تعداد لاکھوں لاکھوں تک پہنچ چکی ہے کیا ہندوستان پاکستان بلکہ کینیڈا اور امریکا وغیرہ کے اردو شائقین بھی اس کے صارف ہیں۔

’’ ریختہ فاؤنڈیشن ‘‘ والوں نے اردو کا کثیر شعر و ادب بڑی خوبی ، بڑے سلیقے سے دیونا گری (ہندی) رسم الخط میں منتقل کر دیا ہے اور یہ کام جاری و ساری ہے، ہندو پاک کے تمام ممتاز اہل قلم کا سرمایہ ادب ہندی میں پڑھنے والوں کے لیے دستیاب ہے، ظاہر ہے کہ اردو زبان کی بنیادیں عربی اور فارسی کی لفظیات و اصطلاحات پر مبنی ہیں۔

ریختہ نے ہندی زبان میں اردو شعر و ادب کی منتقلی میں اس کا خیال رکھا ہے کہ وہ لفظیات و اصطلاحات جو ہندی والوں کے لیے مشکل ہوں گی تو ان کے لیے ہر کتاب میں لُغَت یا لُغَت جیسے صفحات معنی و مطلب کے سا تھ جوڑ دِیے ہیں۔

اسی کے ساتھ ’ ریختہ روزن ‘ کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی مجلہ بھی اردو اور ہندی میں الگ الگ شائع ہو رہا ہے جس کے اب تک کوئی چھ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ تو ہم نے بانی ریختہ سنجیو صراف اور ان کے رفقا کی چند کار گزاری کی ایک معمولی سی جھلک اپنے لفظوں میں دکھائی ہے۔ اب آئیے ہمارے اردو والے ایسی خدمت ِ ریختہ پر کیسے تبصرے کر رہے ہیں:

’’ریختہ کے ساہو کاروں نے جب پرائی دلہن کو اپنی دہلیز پر پایا تو پہلے تو کمال ہشیاری سے اسے گھر کی زینت بنایا اور پھر دھیرے دھیرے اسے کوٹھے پر لایا یا پہنچایا۔‘‘

اگر یہ تبصرہ صحیح ہے تو ذرا ہم (بھارتی) مسلمانوں کے مشاعرے وغیرہ پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے کہ اسے ہمارے سیاسی لوگوں نے اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے ان مشاعروں کو کیسے یرغمال بنا رکھا ہے اور ہمارے نام نہاد شاعروں نے اسے اپنی کثیر آمدنی کا کیسا ذریعہ بنا لیا ہے؟ یو پی میں اردو کی جو صورتِ حال ہے وہ سب کو پتہ ہے۔

صرف ممبئی میں سرکاری سطح کے اوّل تا ہائی اسکول جماعت کے ہزارہا اردو میڈیم درس گاہیں ہیں جو بند ہو رہی ہیں یا بند ہوجائیں گی، جہاں ہماری قوم کی بیٹیاں اور بیٹے نہ صرف مفت میں پڑھ رہے ہیں بلکہ ہزارہا اردو مدرسین بھی برسر روزگار ہیں وہ اس صورت ِ حال میں روزی روٹی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

یہ اسکول کیوں بند ہو رہے ہیں اور اس مسئلے کا کوئی علاج ہے یا نہیں! اس پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا کہ یہ مسئلہ ’سرطان‘ کی شکل اختیار کر رہا ہے اور اردو کے اس سرطان کا علاج بھی کسی کے پاس نہیں۔ کیوں کہ ہمارے لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں پڑھانا ہی نہیں چاہتے۔

عیب جو لوگوں کے نزدیک ریختہ والوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ریختہ نے اردو ادب کا کثیر سرمایہ ہندی والوں کے سامنے کیوں پروس یا سجا دِیا مگر یہ لوگ یا تو جانتے نہیں یا بھولے ہوئے ہیں کہ اردو زبان کا شعر و ادب کوئی پچاس برس ادھر مختلف زبانوں میں منتقل ہو تا رہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال روسی زبان کی ہے جس میں اردو کا اعلیٰ ادب اور اعلیٰ پیمانے پر منتقل ہو چکا ہے۔

اس لِسانی لین دین، آدان پردان یا تبادلے سے زبان ہی نہیں ادب بھی ترقی کرتا ہے اور اہل ادب بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔