- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
دنیا کے 5 خطرناک ترین مقامات پر بنی رہائشی عمارات
دنیا میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں سنگین خطرات لاحق ہونے کے باوجود لوگ عمارات تعمیر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ علاقے قدرتی آفات کا خطرہ رکھتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درجہ ذیل پیش کی جارہی ہیں:
1) معلق خانقاہیں، چین
معلق خانقاہوں کا یہ سلسلہ چین کے شانژی صوبے میں ہینگ شین پہاڑ پر واقع ہے۔ یہ 491 عیسوی میں تعمیر کیے گئے تھے جس کے بعد سے یہ کئی صدیوں بعد بھی اپنی اصل حالت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کشش ثقل کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خانقاہیں 40 کمروں پر مشتمل ہیں جو گزرگاہوں کی بھول بھلیوں کے ذریعے جڑی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خانقاہیں صرف ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ تین کنفیوشس ازم، تاؤ ازم اور بدھ مت کے لیے وقف ہیں۔ اس میں 78 بُت اور نقش و نگار ہیں۔
2) کیسٹل فولیٹ ڈی لا روکا، اسپین
کیسٹل فولیٹ ڈی لا روکا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک عام جگہ پر بنا قصبہ تھا لیکن کسی ناقابل یقین طاقت نے اس کے مکانات کو جیسے پہاڑ کے کنارے پر دھکیل دیا ہو۔ یہ شہر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے آباد ہے۔ قصبوں میں تنگ گلیاں ہیں جو اب بھی اپنے قرون وسطیٰ کی خصوصیات رکھتی ہیں۔ عمارتوں کا خطرناک مقام اور اس عرصہ دراز میں بنیادوں کی ممکنہ کمزوری بہتوں کے نزدیک خطرے کی گھنٹی ہے۔ لوگوں کا کافی عرصے سے ماننا ہے کہ زلزلے کے معمولی جھٹکے کی دیر ہے اور سب ختم ہوجائیگا لیکن اس کے باوجود یہ قصبہ اب بھی آباد ہے اور اسپین میں سیاحوں کی توجہ کا ایک مقام ہے۔
3) شیڈوکلیف، مشیگین جھیل، شمالی امریکا
20 ویں صدی کے نصف آخر میں ہیری نام کا ایک ممتاز معمار گزرا ہے جس کا تعلق امریکی شہر شکاگو سے تھا۔ ہیری نے اپنے کیریئر میں کئی ایک خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں لیکن اس کی سب سے متنازع عمارت مشی گن جھیل پر بنا شیڈو کلف مینشن ہے۔ گھر کو بزنس ایگزیکوٹیوز کے چھٹیاں گزارنے کے مقام کے طور پر بنایا گیا تھا۔ سامنے سے دیکھا جائے تو عمارت بہت عام دکھائی دیتی ہے لیکن جب لوگ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے جیسے کہ وہ شیشے کے ڈبے میں زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر لٹکے ہوئے ہوں۔.
4) لشٹینسٹائن قلعہ، جرمنی
لشٹنسٹائن قلعہ (Lichtenstein Castle) کو پریوں کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ دراصل ایک سابق قلعے کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا جس کی تعمیر 1842 میں مکمل ہوئی۔ اسے قرون وسطی کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ عمارت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ قلعے کی بیرونی دیوار ایک چٹان کے بالکل کنارے پر بنائی گئی ہے۔ عمودی نظارہ دلیر ترین سیاحوں کو بھی پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ معماروں کا دعویٰ ہے کہ قلعہ مضبوط ہے لیکن بنیادوں میں کسی بھی قسم کی حرکت عمارت کے گرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
5) میٹیورا موناسٹریز
کیا آپ اس خانقاہ میں رہنا چاہیں گے؟ اگر ہاں تو ہر روز گھر سے باہر محض چہل قدمی بھی کرنا آپ کیلئے ناممکن ہوگا۔ اسے 14ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، لوگوں کا اس خانقاہ تک پہنچنے کا واحد راستہ رسی تھی یا سیڑھی یا پھر لٹکی ہوئی ٹوکری جس میں وہ بیٹھ کر اوپر آتے تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔