آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کیلیے درست راستہ اختیار کریں، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  پير 29 مئ 2023
—(فوٹو : فائل)

—(فوٹو : فائل)

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نئے نظرثانی سے متعلق قانون کے پیش نظر سماعت جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن سے متعلق حکومت سے ہدایات لینے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آئے۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنے دلائل کا آغاز کرتے اٹارنی جنرل عثمان منصور روسٹرم پر آئے اور عدالت سے استدعا کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

عدالت سے اجازت ملنے کے بعد اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نظرثانی دائرہ اختیار سے متعلق قانون بن چکا صدر مملکت نے بھی منظوری دے دی اور اسکا اطلاق جمعہ سے ہو بھی چکا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی قانون کا سن کر الیکشن کمیشن کے وکیل کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے اٹارنی جنرل اس بارے حکومت سے ہدایات لے لیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس کا ہمارا حکمنامہ ضرور پڑھا ہوگا، ذہن میں رکھیں عدالت نے کمیشن کو کالعدم قرار نہیں دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ککہ عدالت نے عدلیہ آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دیکھایا، تمام جوڈیشل کمیشنز میں چیف جسٹس کی مرضی سے کمیشن تشکیل دیے جاتے ہیں اور کسی چیز پر تحقیقات کروانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا لیکن کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، یہ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔

چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن بابت حکومت سے ہدایات لینے کی اٹارنی جنرل کو پھر سے ہدایت کر دی جبکہ نظر ثانی سے متعلق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب نیا قانون بھی آچکا ہے اور ہم بات سمجھ بھی چکے ہیں اور ہمیں نئے قانون کا مکمل ادراک ہے، تاہم تحریک انصاف کو بھی نئے قانون کا علم ہوجائے اس کے بعد ہم سماعت کر لیں گے فی الحال ہم سماعت جمعرات تک ملتوی کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔