- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
- آدھی سے زائد معیشت کی خرابی توانائی کے شعبے کی وجہ سے ہے، وفاقی وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
پلان بی اور آئی ٹی پروگرام
سترکی دہائی کے آغاز سے ہی عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ایشیا افریقہ اور دیگر خطوں کے ممالک بھی اپنے توازن ادائیگی کے شدید مسائل سے دوچار ہونے لگے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سے ممالک آزاد ہونے لگے تو ان میں ترقی کی زبردست خواہش جاگ اٹھی۔ صنعتی ممالک کہیں یا مغربی ممالک کہیں یہ تمام صنعتی دورکے آغاز کے بعد اس دوڑ میں شامل ہوگئے کہ ان کی مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کی جائیں۔
پھر صنعتی دور نے پلٹا کھایا اور اب مشینریاں، کاریں، ٹرک، ٹریکٹر اور دیگر الیکٹریکل، ایگریکلچر اور بے شمار مشینریاں پرزے اور دیگر کی تیاری پھر ان کی نکاسی، ان کی برآمد کے لیے ملکوں کی تلاش، یہ سارا عمل جاری تھا اور امریکا انگلینڈ اور دیگر مغربی صنعتی ممالک یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی برآمدات چاہے وہ صنعتی ہوں یا اسلحہ سازی کی کیوں نہ ہوں ان سب کی کھپت جن ملکوں میں ہوگی وہ غریب ممالک ہوں گے۔
عالمی منڈی میں آج سے 50 برس قبل تیل کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا۔ ظاہر ہے کہ بہت سے صنعتی ممالک کے اخراجات اور ان کی صنعتی مصنوعات کی تیاری اور لاگت میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوا، لہٰذا عالمی منڈی میں ان کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے لگیں، لیکن سب سے زیادہ تعصب کا مظاہرہ اس بات پر کیا گیا کہ ترقی پذیر ملکوں کی زرعی پیداوار ہو یا ان کی زراعت پر مبنی مصنوعات یا دیگر ہلکی پھلکی مصنوعات ان کی قیمتوں میں معمولی اضافہ یا کمی بھی دیکھی گئی جس سے یہ ممالک شدید متاثر ہوئے۔
مالیاتی فنڈ کی طرف سے قرض کی فراہمی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ ملک قرض حاصل کرکے اپنے ملک میں روزگار کی سطح میں اضافہ کرے۔ قومی آمدنی میں اضافہ کریں، اور ان تمام باتوں کا خاطرخواہ اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہو ملکی کرنسی مضبوط ہو۔ اس کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو، اور تجارتی خسارے میں خلیج کو کم سے کم کیا جاسکے۔
لہٰذا آئی ایم ایف پروگرام کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ ضرورت مند ملک کو قرض فراہم کرے۔ آئی ایم ایف کے ماہرین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں بہتری آتی ہے تو اس کے نتیجے میں درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح دیگر ملکوں کو بھی ملانے سے مجموعی طور پر بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ ترقی یافتہ ممالک کو ہوتا ہے کہ ان کی برآمدات بڑھتی ہیں دنیا بھر کے ممالک میں ان کی کھپت بڑھتی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کی لے لیتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے آئی ایم ایف کی بے رخی کے باعث پاکستان کی طرف سے منگوائے گئے کنٹینرز جس میں مجموعی طور پر اربوں ڈالر کا مال جس میں دالوں سے لے کر چائے اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے لیے میٹریلز، دیگر صنعتی مصنوعات، گاڑیاں، کاریں، الیکٹرک گڈز اور دیگر بہت سی مصنوعات کی خریداری کے لیے ڈالرز کی شدید قلت نے بالآخر کس کو نقصان پہنچایا؟ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ان کو محسوس نہیں ہو رہا لیکن دیگر ممالک کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا تو اس طرح مجموعی طور پر بین الاقوامی تجارت شدید متاثر ہوگی۔
اس وقت عالمی کساد بازاری پائی جا رہی ہے حتیٰ کہ صنعتی ممالک بھی اپنے کم ہوتے ہوئے درآمدات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب بھی اور اس سے قبل بھی ترقی پذیر ممالک اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کی امداد کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی۔ بہت سے ممالک نے اس سے منہ موڑ لیا ہے اور اپنا پلان بی تیار کر کے اس پر عمل کیا۔
پاکستان میں بھی اب پلان بی کی باتیں ہو رہی ہیں جوکہ بہت ہی خوش آیند بات ہے۔ پلان بی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ عارضی حل کے ساتھ مستقل بنیادوں پر اس کا حل نکالنا بھی ضروری ہے جس کے لیے ابھی سے پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔
مستقبل کی بات کریں تو پاکستان کا اس وقت حال اور مستقبل اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افرادی قوت حکومتی اعانت، مدد، رہنمائی، رہبری، تعاون کے ساتھ اپنی افرادی قوت کو بیرون ملک برآمد کرے۔ اور اپنے شہریوں، نوجوانوں کو مفت جدید ٹیکنالوجی جس میں آئی ٹی پروگرام سب سے اہم ہے اس کی مفت تربیت کا انتظام کرے تاکہ جلدازجلد یہ افرادی قوت ملکی ترقی اور قومی آمدنی میں نمایاں اضافے کا سبب بنے۔
شاید اسی مستقبل بینی کا ادراک کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ گورنر ہاؤس میں ایک لاکھ نوجوانوں کو مفت آئی ٹی کی تربیت دی جائے گی۔ ان کی یہ بات سب سے اہم ہے کہ اب یہ عوام اور میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ ان منصوبوں کو مستقبل میں جاری و ساری رکھنے میں اپنی بھرپور کاوشیں بروئے کار لائیں۔
اس طرح کی کاوشیں اگر ملک بھر میں جاری ہو جاتی ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا نہ ملے۔ لہٰذا وفاقی حکومت اپنے بجٹ میں طلبا و طالبات کے لیے آئی ٹی کی تعلیم و تربیت کے لیے فنڈز رکھے اور ہر وہ طالب علم اور طالبات جنھوں نے پوسٹ گریجویٹ تعلیم ڈاکٹر، فزیوتھراپسٹ، ایم بی ایز، ایم ایس سی وغیرہ کو مفت لیپ ٹاپ فراہم کرے۔
کم ازکم سال 2018 سے اب تک جتنے بھی طلبا و طالبات نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی ہے ان سب کو لیپ ٹاپ فراہم کیا جائے اور ان تمام باتوں کو پلان بی کا حصہ بنایا جائے کیونکہ پلان بی صرف وقتی یا عارضی نہیں بلکہ مستقل اور مستقبل تک محیط ہونا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔